حضرت سلطان عبد الحکیم قادری کا عرس مبارک
موجودہ ضلع خانیوال جو کہ 1985 تک ضلع ملتان کا حصہ ہو ا کرتا تھا ، کے نواح میں دریائے راوی کے کنارے آباد فتح پور سھارن قصبہ جس کا موجودہ نام عبدا لحکیم ہے ۔ یہ علاقہ تاریخی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے، عہد مغلیہ میں یہ علاقہ پرگنہ تلمبہ کے زیر اثر تھا اور اس میں سہارن قوم آباد تھی، علاوہ ازیں یہ خطہ ممتاز عالم دین اور عالمی مبلغ اسلام حضرت مولانا طارق جمیل کے خانوادہ سہو قبیلہ کا مسکن ہے ، یہ قو م بہت نرم مزاج ، انسان دوست ، صلح جو ، دین دار اور سخاوت و فیاضی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی تھی۔ موضع عبدالحکیم بھی ابتدا ء میں ایک سہو خاندان کی نیک اور پارسا عورت کی ملکیت تھا جنہوں نے اولاد نرینہ نہ ہونے کے باعث حضرت سلطان عبدالحکیم سے دعا کی درخواست کی،آپکی دعا سے اس خاتون کو اﷲ تعالیٰ نے نرینہ اولاد سے سرفراز فرمایا۔اس صالحہ پاک دامن خاتون نے یہ علاقہ حضرت سلطان عبدالحکیم کو نذرانہ یا ہبہ کر دیا بعد میں یہ علاقہ حضرت سلطان عبدالحکیم کے نام سے موسوم ہوا۔آپ کے والد محترم حضرت غلام علی ایک شب زندہ دار، متقی اور پرہیزگار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے والدین پہلے شیخ ملکا نزد خانیوال میں رہائش پزیر تھے بعد ازاں حضرت شیخ حاجی رحمت اﷲ کی ہدایت پر پیر کروڑی کے مقام پر فروکش ہوئے۔ آپکا نسب نامہ پدری کی ترتیب کچھ یوں ہے:حضرت سلطان عبد الحکیم ؒبن غلام علیؒ بن حضرت اﷲ جوایاؒ بن حضرت صلاح محمدؒ بن حضرت پیارؒا بن حضرت اﷲ رکھاؒ بن حضرت ہیدؒ بن حضرت جودھا ۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقہ پیر کروڑی سے حاصل کی، قرآن مجید حفظ کیا، ابتدائی دینی کتب کا علم حاصل کیا۔ جب آپ عمر کی بارھویں منزل تک پہنچے تو دریائے راوی کے کنارے موجود ہیڈ سدھنائی (قدیم ) پر آپ کی ملاقات اپنے وقت کے صوفی بزرگ حضرت سید جمال اﷲؒسے ہوئی ،جو منبع جو دو سخا ،قبلہ اہل وفا اور قبول و مقبول خاص و عام ، اہل اﷲ میں سے تھے اور عارف حقیقی تھے ، اس ملاقات میں حضرت جمال اﷲ حیاتؒ نے آپ کو صاحب کشف و کرامات کے مقام تک پہنچا دیا اور ساتھ فرمایا کہ جو میں نے آپ کو عطا کیا ہے اس سے آپ بام ثریا تک محو پرواز رہو گے۔
آپ کے سلسلہ طریقت قادریہ کی تفصیل حسب ذیل ہے: حضرت سلطان عبدالحکیمؒ ، حضرت جمال اﷲ حیاتؒ ، حضرت سید عبد الرزاق گیلانیؒ ، حضرت سیدنا غوث الا عظم عبد القادر جیلانی ؒ، حضرت ابو سعید مبارک مخذومیؒ، حضرت ابو الحسن ہکاریؒ، حضرت ابو الفراج طرطوسیؒ، حضرت خواجہ عبد الواحدؒ تمیمیؒ، حضرت شیخ ابو بکر شبلیؒ، حضرت خواجہ جنید بغدادیؒ، حضرت خواجہ سرسقطیؒ، حضرت خواجہ معروف کرجیؒ، حضرت شیخ دائود طائیؒ، حضرت خواجہ حبیب ؒ ، حضرت خواجہ حسن بصریؒ، حضرت امام حسن مجتبیٰؒ، حضرت سیدنا مولا علی ابن ابی طالب ؒاوروجہ تخلیق کائنات آقائے نامدار سیدنا حضرت محمد مصطفٰی احمد مجتبٰیﷺ۔آپ کی تعلیمات ہمیں شریعت کا پابند بناتی ہیں۔آپ کا فرمان ہے کہ میرے آستانے سے کوئی بھی بھوکا نہ جائے آپ کا دسترخوان بہت وسیع تھاجو کہ ماضی کی طرح آج بھی اسی طرح کشادہ ہے کہ اسلاف کے دستر خوان کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ آپ جھوٹ کو سخت نا پسند کرتے راست گوئی ، صدق و صفا،ایمانداری سماجی عدل و انصاف اور شریعت کی پابندی آپ کی شخصیت کا خاصہ تھا آپ کا زہد و تقویٰ ضرب المثل کی حد تک معروف تھا،شب زندہ دارولی تھے۔ زیادہ وقت مسجد میں گزارتے ا ور بقیہ وقت مخلوق خدا کی خدمت میں صرف کرتے۔آپ کے والد محترم حضرت غلام علیؒ پارچہ شوئی اور رنگریزی کے پیشے سے منسلک تھے آپ نے بھی اس پیشے کو زندگی کی زلفیں سنوارنے کے لئے اختیار کیامگر درحقیقت آپ قلوب کو توحید اور عشق رسول ﷺکے نہایت خوبصورت اور دائمی رنگوں میں رنگتے تھے۔
آپ کے روزانہ معمولات و مشاغل میںذکر و ازکارکو ایک خاص اہمیت حاصل تھی آپ کے درودو وظائف میں ذکر جلی مخفی، دردو مستفات اور دعائے سہفی بھی شامل تھیں سورۃالمزمل آپ کا خاص الخاص وظیفہ تھا۔ آپ اپنے عمر کے نامور دیندارگھرانے کی صالحہ اور پاکباز خاتون بی بی فاطمہؒ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے جن کے بطن سے حضرت عبدالخالقؒ اور گیارہ صاحبزادیاںتولد ہوئیں۔ جن میں بی بی عائشہ ؒ کو زہد و تقوٰی میں ایک خاص مقام حاصل تھا رابعہ عصر حضرت بی بی مائی صفورہ ؒنے انہی سے اکتساب فیض کیاانہی کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے حضرت بی بی مائی صفورہ ؒکو نیک اور صالح فرزند حضرت صالح محمد صفوریؒ اور ممتاز عالمہ و فاضلہ صاجزادی حضرت صالحہ ؒسے سرفراز فرمایا۔ آپ نے دیگر فیض یافتگان کی طرح حضرت بابا بلھے شاہؒ کو بھی ذکر اسم ذات کی تلقین فرمائی۔اقلیم ولایت کے تاجدار حضرت سلطان عبدالحکیم ؒ کو 1145ھ کو رحمت حق پرست میں پیوست ہو ئے آپ نے اپنے وصال سے قبل وصیت فرمائی کہ میری روح قفس عنصری سے پرواز کرنے کے بعد ادھر حضرت سید فاضل شاہؒ (دندی سرمََانہ) جو کہ حضرت مخدوم سید جلال الدین مخدوم جہانیاںؒ جہاں گشت کی اولاد امجاد میں سے ہیں تشریف لائیں گے وہ کچھ عرصہ یہاں رہیں گے تو ان کو تخلیہ چاہئے ہو گا تم لوگ یہاں سے ہٹ جاناپھر وہی میرا جنازہ پڑھائیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔آپ کو آپ کے نام سے قائم ہونے والا قصبہ عبدالحکیم کے وسط میں سپرد خاک کیا گیاآپ کا مزار پرانوا رآج بھی مرکز تجلیات اور مرجع خلائق ہے آپ کے والدین کے مزارات پیر کروڑی کے مقام پر واقع ہیں۔
آپ کا عرس مبارک ہر سال 21, 22, 23 جون بمطابق 6,7,8 ہاڑبکرمی کو باقاعدگی سے نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے جس میں ذکر واذکار کی محافل کے ساتھ علماء کرام دعوت دین حق سے لوگوں کے قلوب کو منور فرماتے ہیںاس کے علاوہ اس میں علاقائی ثقافت کا رنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس میںہزاروں کی تعداد میں زائرین دہلی تک سے آکر فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں۔