تنقید بھی برداشت کرنی چاہیے
قیام پاکستان جمہوری تحریک کی کرامت تھی اس جمہوری تحریک کے لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح تھے اور وہ اعلی پائے کے وکیل تھے لیکن بانی پاکستان نامور وکیل کے ساتھ ساتھ نہایت ہی اعلی پائے کے پارلیمنٹرین بھی تھے ۔ ان کا پارلیمان میں اٹھنا بیٹھنا ان کے طور طریقے ان کا طرز کلام اور گفت و شنید نہایب ہی اعلی اور منفرد تھے اور پاکستان بلا شبہ مسلم لیگ کی تحریک کا ثمر تھا ، تولہذا پاکستان کا وجود اور پاکستان کی ترقی پارلیمانی طرز حکومت سے مشروط ہے ۔ہماری 70 سالہ زندگی میں بہت سے اتار چڑھائو آتے رہے ہیں ۔اس ملک میں بڑے بڑے تجربے کئے گئے ہیں۔مختلف طرز حکومت آزمائے گئے ہیں لیکن بالآخر پارلیمانی طرز حکومت ہی اس ملک کے کام آیا ہے اور اسی طرز کی حکومت نے پاکستان کی کشتی کو ڈوبنے سے بچایا ہے ۔لیکن ہمارے ملک میں مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام کو اس کی روح کے مطابق اچھے انداز میں کبھی چلایا ہی نہیں گیا ہے ۔ہمیں اعلی انداز میں اور اعلی اقدار کے ساتھ اس نظام کو چلانے کی ضرورت ہے ۔یہ اس قوم کا سیاسی ایجنڈا ہے ،ماضی میں ہم نے صدارتی طرز حکومت بھی دیکھا ہے ، اور مختلف صدور اور وزراء اعظم کو بھی دیکھا ہے جو بڑے عجیب انداز میں حکمرانی کرتے رہے ملیکن ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا وہ تو ہوتاہی رہا لیکن اب ایک بار پھر ماضی کو دوہرایا جارہاہے ۔جو کچھ آج کل قومی اسمبلی میں ہورہاہے وہ قابل مذمت ہے اور نہایت ہی افسوس ناک ہے لیکن ساری صورتحال میں سپیکر کو اسملی میں غیر جانبدار کردار ادا کرنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے اس کے بغیر اسملی کے معاملات اچھے انداز میں چل ہی نہیں سکتے ہیں ۔سپیکر اگر نہ حکومت طرف داری کرے اور نہ ہی اپوزیشن کو ضرورت سے زیادہ دانا نہ ڈالے بلکہ ایک متوازن انداز میں ایوان کو ساتھ لے کر چلے تو کام بہتر انداز میں چلتا رہے گا ۔لیکن اگرسپیکر حکومت کی جانب جھکائورکھے گا تو پھر ایوان میں یہی کچھ ہوگا جو کہ آج کل ہو رہا ہے ۔حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ ایوان کے ماحول کو ٹھنڈا رکھے۔فراخ دلی سے اپوزیشن کی تنقید کو برداشت کرے،اپنی بات بھی کرے اور پوزیشن کی بات بھی سنے لیکن ایسا ہو نہیں رہا،حکومت کے معتدل روپے ہی ملک میں تحمل،برداشت اور میانہ روی کے رویوں کو فروغ دیتے ہیں لیکن اگر حکومت اشتعال انگیزی میں پڑی ہوئی ہو اور جلتی پر تیل ڈالنے کاکام کر رہی ہو تو معاملات نہیں چلا کرتے۔مجھے نہیں معلوم کہ ایک بہت ہی پڑھے لکھے ہائوس میں جہاں اکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ارکان بھی موجود ہیں اور ایسے ارکان بھی موجود ہیں جو کہ بیرسٹرز ہیں اس کے علاوہ بھی اعلی تعلیم یافتہ ارکان پارلیمنٹ میں موجود ہیں لیکن پھر بھی ہائوس نہ چلے تو یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے ، اور میری نظر میں اس تمام صورتحال کی ذمہ داری سپیکر آف دی ہائوس اور وزیر پارلیمانی امور پر عائد ہوتی ہے اور خود وزیراعظم کی ایوان کو اچھے انداز میں چلانے کے حوالے سے اہم ذمہ داری ہے ،وزیر اعظم کا ایوان میں آنا اجلاسوں میں شرکت کرنا اور ممبران سے میل جول ایوان کے ماحول کو سازگار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہے لیکن ہمیں وزیر اعظم کی جانب سے ایسی کوئی بھی چیز دیکھنے کو ملی نہیں ہے ۔ لیکن کچھ ہمارے حکمرانی کلچر میں تبدیلی کی بھی ضرورت ہے ،اسمبلی کو ایسے انداز میں چلانے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی دیگر قوتیں اپنے مفادات حاصل نہ کر سکیں ،کسی اور کے ایجنڈے کی تکمیل نہ ہو جائے کیونکہ ہم نے اس ملک میں دیکھا ہے کہ یہاں پر جمہوریت پر شب خون مارنے کے لئے ہمارے دوست ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔ لہذا جمہوریت کو دوام دینا اور اس کو صحیح انداز میں اٹھانا ۔ پروان چڑھانا بہر حال پارلیمان میں موجود صاحبان کی ذمہ داری ہے ۔عوام بھی چاہتے ہیں کہ اس ملک میں جمہوریت ہو قانون کی بالادستی قائم ہو ان کو انصاف ملے ان کے معاملات زندگی بہتر انداز میں چلیں ،قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت کبھی پھلتی پھولتی نہیں ہے ،یہ متقننہ کاکام ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو محفوظ رکھے کیونکہ بغیر عدل کے معاشرے قائم نہیں رہ سکتے ۔عدل ہوتا ہے تو معاشرہ ترقی کرتا ہے اور معاشرے کی ترقی کیلئے لازم ہے کہ ملک میں امن اور استحکام ہو تاکہ صنعت و حرفت ترقی کر سکے ۔تاریخ گواہ ہے کہ صنعت و حرفت کی ترقی کے بغیر کسی بھی ملک نے آج تک ترقی نہیں کی ہے ،اس کے بغیر آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا ہے ۔
اب کچھ بات افغانستان کے حوالے سے بھی کرنا چاہوں گا ، امریکی افواج بڑی تیزی کے ساتھ افغانستان سے روانگی کیلئے تیار ہے ، اور انخلا کا یہ سلسلہ آنے والے دنوں میں ختم ہو جائے گا اور اس خدشے کا اظہار کیاجارہاہے کہ آنے والے دنوں میں افغانستان میں پھر وہی حالات ہونے جارہے جو کہ 90 کی دہائی میں پیش آئے تھے ۔روس کے افغانستان سے انخلاء کے بعد افغانستان کی حکمرانی افغانستان کے ہاتھ آئی تھی اور سوائے چند شمالی علاقوں کے باقی تمام افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوگیا تھا اور طالبان اگر تھوڑے صبر سے کام لیتے تو افغانستان کے شمالی علاقے بھی طالبان کے پاس ہی ہوتے ۔ اب بھی اسی قسم کے حالات ہیں وہی ایکٹرز سٹیج پر موجود ہیں اور میرے خیال میں اس بار طالبان کی گریٹر اسٹیج پر حکومت بنے گی ۔لیکن شائد پہلے سے زیادہ مخلوط طرز کی حکومت ہوگی اور اس حکومت کی ہر طرح سے مدد اور معاونت کرنا افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کا عین فرض ہے۔افغانیوں نے نہ صرف انگریزوں کو شکست دی بلکہ اس کے بعد روس کو شکست دی اور اب امریکہ اور نیٹو کوبھی شکست دے دی ہے ۔ اس فتح پر خوش ہونا چاہیئے اور جشن منانا چاہیئے افغانستان کی کامیابی کے نغمے گانے چاہئیںاور حکومتی سطح پر افغانستان کی ہر طرح سے مدد کی جانی چاہیئے ۔