پنجاب کا کلچر
لفظ ’’ کلچر‘‘ کا ترجمہ اردو زبان میں ثقافت کیا جا سکتا ہے، لیکن جن معنوں میں ہم لفظ ثقافت روزمرہ میں استعمال کرتے ہیں اس کے اصل معنی اس سے بہت وسیع ہیں۔ دراصل کلچر کا مطلب ہے کہ کسی چھوٹے یا بڑے علاقے میں جو لوگ رہتے ہیں ، وقت کے ساتھ ساتھ ان میں کچھ عادتیں، رہن سہن ، طور طریقے اور معاشرتی رویے پیدا ہو جاتے ہیں جن کے نتیجے میں معاشرہ تشکیل پاتا ہے جس کے کچھ اصول ہوتے ہیں، کچھ قوانین بنتے ہیں ، کچھ چیزوں کو جائز اور کچھ کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ یہ زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتا ہے ، علم سے لے کر عقائد، آرٹ، رسم و رواج، انسانوں کی عادتیں، کھانا پینا، لباس، میل جول، زبان، ادب شاعری سب اس میں شامل ہے۔ لاکھوں برس قبل جب انسانی تہذیب وجود میں آنا شروع ہوئی تو کلچر بھی خود بخود اپنی ارتقائی منازل طے کرتا گیا۔ مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی ثقافت یا کلچر بالکل مختلف ہو سکتا ہے۔ اسی طرح پنجاب کے علاقے میں جو لوگ رہتے ہیں ان کی ثقافت اور کلچر برصغیر کے دیگر علاقوں سے مختلف ہے۔ جو زبان یہ بولتے ہیں اسے پنجابی کہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں تقریباََ گیارہ سے بارہ کروڑ انسان پنجابی زبان بولتے ہیں ۔ ان میں سے آٹھ کروڑ سے زیادہ پاکستانی پنجاب میں اور باقی بھارتی پنجاب اور تمام دنیا میں رہتے ہیں۔ برصغیر میں بولی جانے والی قدیم زبانوں ( بشمول سنسکرت) سے پنجابی زبان کا ظہور ہوا۔ موجودہ دور کی پنجابی ایک جدید اور مکمل زبان کی صورت میں ساتویں صدی میں ہی جوان ہو چکی تھی۔ پنجابی ادب کی مشہور تصانیف نویں صدی سے ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ پنجابی ادب کی بات ہو اور صوفی شاعروں کا ذکر نہ ہو؟ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میںہم بچپن سے پڑھتے آرہے ہیں کہ برصغیر میں اسلام کی ترویج میں ایک بڑا اور اہم ترین ذریعہ صوفیا کرام تھے۔ ان میں بابا فرید گنج شکر (1179-1266)، شاہ حسین (1538-1599)، حضرت سلطان باہو (1630-1691)، شاہ شرف (1640-1724)، بابا بلے شاہ (1680-1757) ، علی حیدر (1690-1785)، وارث شاہ (1722-1798)، میاں محمد بخش (1830-1907)، اور خواجہ غلام فرید(1845-1901 چند نام ہیں۔ دنیا کے ادب کی تاریخ لکھی جائے تو پنجابی اد ب کے بغیر نامکمل ہو گی۔ اس سلسلے میں ہیر رانجھا، سوہنی ماہینوال، مرزا صاحباں، سسی پنوں اور قادر یار مشہور ہیں۔ فلموں میں یہ سب قصے صرف محبت کی داستانوںکے طور پر پیش کیے گئے ہیں لیکن در اصل ان میں محبت کے ساتھ ساتھ قربانی، معاشرتی اقدار، روایات اور سب سے بڑھ کر ظلم، برائی اور سماج کے خلاف بغاوت کی تعلیم بھی دی گئی ہے۔ اسی طرح ’’ نادر شاہ دی وار‘‘ اور ’’ جگنامہ‘‘ کے بغیر دنیا کے ادب کی تاریخ رقم نہیں کی جا سکتی۔بابا گرو نانک کے ایک مسلمان ساتھی اور صوفی شاعر ’’ بھائی مردانہ‘‘ اور حضرت بابا فرید کی شاعری کا بڑا حصہ سکھ مذہب کی کتاب ’’ گرو گرنتھ صاحب‘‘ میں شامل ہے ۔ ’’ گرنتھ صاحب‘‘ 1604 میں گرو ارجن دیو نے مرتب کی تھی۔ یہ سب بتانے کا مقصد صر ف یہ ہے کہ جدید پنجابی زبان کی تاریخ سینکڑوں برس پر محیط ہے اور یہ ’’ تھڑوں‘‘ پر بیٹھے ’’ کمیوں‘‘ کی زبان نہیں ہے بلکہ اس میں کسی بھی بڑی او ر ’’تہذیب یافتہ‘‘ زبان سے زیادہ ادب، شاعری، قصے اور چاشنی موجود ہے۔ یہ تو کچھ انگریز حکومت کی مہربانی ہے اور کچھ ہمارا ’’ احساس کمتری‘‘ جس کی وجہ سے جس طرح، شیروانی اور پگڑی ہوٹلوں کے دربانوں کا لباس بن گئی، لفظ مولوی آج تحقیر اور مذاق کا استعارہ بن چکا ہے اسی طرح پنجابی کے بارے میں خیال ہے، یا پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پنجابی گنواروں، جاہلوں اور تھڑوں پر بیٹھنے والے بے علم لوگوں کی زبان ہے جنہیں بات کرنے کی تمیز نہیں اور ان کا عام رویہ ہے کہ یہ آپس میں روز مرہ کی بات کرتے ہوئے گالی گلوچ اور دشنام طرازی سے کام لیتے ہیں۔
گالی گلوچ ، دشنام طرازی اور غیر پارلیمانی الفاظ ہر زبان کا حصہ ہوتے ہیں، اور دنیا کی ہر زبان میں ایسے الفاظ شامل ہوتے ہیں جو اس زبان کے بولنے والوں میں سے جاہل لوگ غصے میں عقل اور خرد سے بیگانہ ہونے پر استعمال کرتے ہیں۔ پنجابی میں بھی ایسا ہے۔ لیکن جانے کیوں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جہاں دوسری تمام زبانوں میں ان الفاظ کا استعمال ہوتا تو ہے لیکن معیوب سمجھا جاتا ہے، وہاں پنجابی زبان میں ایسے الفاظ معیوب نہیں بلکہ کلچر اور ثقافت کا حصہ ہیں۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ جن گھروں میں پنجابی بولی جاتی ہے وہاں والدین، بچے اور بزرگ آپس میں اور ایک دوسرے کے سامنے ان الفاظ کا استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے؟ اپنا اپنا تجربہ ہو سکتا ہے لیکن کم از کم میں نے کوئی گھر ایسا نہیں دیکھا۔ جیسے ہر ملک، ہر شہر ا ور ہر علاقے کی ثقافت میں تھوڑا فرق ہوتا ہے اسی طرح اگر ہم باریک سطح کی بات کریں تو ہر محلے اور ہر گھر کا رہن سہن اور ثقافت میں بھی تھوڑا فرق ہوتا ہے۔ ممکن ہے جو لوگ پنجابی زبان پر اس قسم کے لغو الزامات لگا رہے ہیں ، اپنے اپنے گلی محلوں اور گھروں کی سطح پر انکا تجربہ اس بارے میں غالب اکثریت سے مختلف ہو اور وہاں کی ’’زبانی لغت‘‘ ، پنجاب کی اکثریت سے مختلف ہو۔ وگرنہ پنجاب کے جس کلچر کو دنیا جانتی ہے ، اس کلچر کی بنیادی اکائی ’’ ایک گھر ‘‘ ہے جس میں عمومی طور پر ایک سربراہ، اسکے بچے اور پوتے پوتیاں رہتے ہیں۔ گھر کے سربراہ کی نہ صرف عزت کی جاتی ہے اور ہر معاملے میں اس سے مشورہ کیا جاتا ہے ، بلکہ سربراہ بھی تمام اہل خانہ کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ اسی طرح گلی محلے کی سطح پر آ جائیں تو ہر گھر کا ہر بزرگ پورے محلے کا بزرگ ہوتا ہے اور کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ کسی بزرگ کے سامنے گالی گلوچ چھوڑ، نظر اونچی کر کے ہی دیکھ لے۔ اسی طرح مائیں اور بیٹیا ں ’’ سانجھی‘‘ ہوتی ہیں۔ ہر ماں کی عزت اپنی ماں کی طرح کی جاتی ہے اور ہر بیٹی سب کی اپنی بیٹی ہوتی ہے۔ یہ سب کوئی بہت زیادہ پرانی یا کتابی باتیں نہیں۔ آج کے دور میں بھی اندرون شہر، اور پرانی بستیوں اور محلوں میں یہ سب نظام اسی طرح قائم ہے۔ صرف لاہور ہی نہیں بلکہ پنجاب کے قریب قریب سارے چھوٹے بڑے شہروں میں۔
کیا ڈیفنس میں رہنے والے یا انگریزی سکولوں میں پڑھنے والے انگریزی زبان میں گالیاں نہیں بکتے۔ اس بد زبانی کو کبھی انگریزی (یا کسی اور ) زبان کی ثقافت یا کلچر کا حصہ نہیں کہا گیا تو یہ مہربانی صرف پنجابی زبان اور پنجابی لوگوں پر کیوں؟ کیا پنجابی بولنے والے اتنے ہی غیر مہذب اور ناشائستہ ہیںـ؟ عوام کی خدمت کی قسمیں کھا کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والے اس قدر احساس کمتری کا شکار ہیں یا انکو کوئی اور نفسیاتی مسئلہ ہے کہ وہ ایک معاشرتی برائی کو کلچر کہہ رہے ہیں ۔ کوئی غلطی ہو جانا گناہ کبیرہ نہیں۔ ہر انسان خطا کا پتلا ہے۔ لیکن غلطی کو تسلیم کرنے اور غلطی کہنے کی بجائے اسکا دفاع کرنے اور اسکو کروڑوں انسانوں کے روز مرہ رہن سہن کا عام اور مقبول حصہ بنانے کی بھونڈی اور لغو کوشش کو کیا کہا جائے؟ یہ کونسا ’’کلچر ‘‘ ہے؟