عمران خان کا مخمصہ
کیا تحریک انصاف حکومت موثر طریقے سے حکومت چلا رہی ہے؟ کیا عوام کو جو خواب دکھلایا گیا تھا اسکی حسین تعبیر نکلی ہے؟ وعدوں کا جو کوہ ہمالہ کھڑا کیا گیا تھا ، وہ پورے ہوئے ہیں۔ پچاس لاکھ مکان ، ایک کروڑ نوکریاں ، گھر گھر من و سلویٰ اُترے گا ، بجلی سستی ہو گی ، اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں ایک عام آدمی کی پہنچ میں ہونگی …قلم میں سیاہی خشک ہو جائیگی وعدوں کی فہرست کم نہیں ہو گی!
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے! محض یہ کہنا کافی نہیں ہے (ن) لیگ کے دور میں کیا تھا ، پیپلز پارٹی نے کس طرح معیشت کا بیڑا غرق کیا ، حضور یہ سوال صرف دو پارٹیاں نہیں بلکہ بائیس کروڑ لوگ پوچھ رہے ہیں۔ بالفرض آپ ان پارٹیوں کی زبان بند بھی کرا دیں تو پھر بھی لوگوں کے سوالات کا جواب تو دینا پڑے گا۔ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کو ورثے میں ایک بیمار معیشت ملی ہے۔ Scorched Earth Policy کے تحت پہلی حکومت آپ کی راہ میں معاشی کاٹنے بچھا گئی ہے، لیکن یہ باتیں ناکامی کا جواز نہیں بن سکتیں۔ پھر لوگ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں، کسی کو اس بات سے غرض نہیںہے کہ ڈار ڈالر کے ساتھ کیا سلوک کر گیا تھا۔
سب سے بڑی بات آپ کا تاریخی شعور ہے۔ یہ درست ہے کہ آپ نے تاریخ تو پڑھی ہے، لیکن اس سے نتائج غلط اخذ کئے ہیں۔ اب مدنیہ کی ریاست کو ہی لے لیں۔ آپ نے پاکستان کو اس میں ڈھالنے کا عزم کیا ہے۔ آپ کی نیت پر تو شک نہیں کیا جا سکتا، لیکن کیا آپ کو علم ہے کہ وہ ریاست خالصتاً کتنی دیر چلی تھی۔ اس کیلئے آپ کو مشورہ ہوگا کہ مولانا مودودی کی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ پڑھیں جس ریاست کی آپ خوبیاں گنوا رہے ہیں، وہ تو خلفائے راشدین کے ساتھ ہی ختم ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد اسلام پھیلتا رہا۔ لوگ کثیر تعداد میں مسلمان ہوتے رہے، لیکن حکمرانوں کا وطیرہ طرز حکومت اور روش کسی طرح بھی اسلامی احکامات کی پابند نہ رہی۔ یہ ایک نازک مسئلہ ہے۔ اس پر بحث ’’پنڈورا باکس‘‘ کھول سکتی ہے۔ میاں نوازشریف یہی غلطی کرنے والا تھا۔ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے امیرالمومنین بننا چاہتا تھا۔ بدقسمتی سے میاں صاحب کے پیش نظر خلیفہ کے اختیارات تھے۔ جرنیلوں اور ججوں کو ہٹانا!Corresponding obligations نہیں تھیں۔ خلفائے راشدین کیا کھاتے تھے، کیا لباس پہنتے تھے، رہائش کیلئے حجرے تھے۔ محلات نہیں۔ انہوں نے اپنی ساری جائیداد بیت المال میں جمع کرا دی۔ کیا آپ شریف برادران، زرداری وغیرہ اس کے لیے تیار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ صرف اتنا کہہ دیتے۔ میں رسالت مآب اور خلفائے راشدین کے نقش قدم پر چلنے کی مقدور بھر کوشش کرونگا۔ تو کافی تھا۔وطن عزیز میں مسائل کا کوہ گراں ہے۔ مصائب کا ٹھاٹھیں مارتاہوا سمندر آپ یقیناً مقدور بھر کوشش بھی کر رہے ہیں۔ کسی قسم کی کرپشن کا ذاتی الزام بھی نہیں ہے۔ مجبوراً ہی سہی، کئی ’’یو ٹرن‘‘ بھی لینے پڑ رہے ہیں۔ ان کے لیے عذر لنگ پیش کرنا اور ہٹلر، موسو لینی کی مثالیں دینا مناسب نہیں ہے۔ آپ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس سے آپ کے Mindset کا پتہ چلتا ہے۔
سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی مکمل تکمیل کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں ہے۔ کئی کرپٹ عناصر آپ کی حکومت میں شامل ہیں۔ اگر آپ ان پر ہاتھ ڈالیں گے تو حکومت نہیں رہتی۔ بالفرض صرف نظر کرتے ہیں تو Selected Accountability کا الزام لگتا ہے۔ جہانگیر ترین نے اپنی پارلیمانی طاقت ظاہر کرکے آپ کو بہت بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ اس سیاسی دلدل سے کیسے باہر نکلیں گے۔
نوکر شاہی آپ سے کسی طور تعاون نہیں کرے گی۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہ نوازشریف کے آدمی ہیں۔ ایک بیورو کریٹ Self Centered ہوتا ہے۔ تنخواہیں آپ نے نہیں بڑھائیں، ان کو بے عزت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ جس تندہی، تیزی اور سرعت کے ساتھ ان کا تبادلہ کیا جاتا ہے، اس سے ان کی تضحیک ہوتی ہے اور مایوسی، بے دلی پھیلتی ہے۔جیمز بانڈ کی طرح چومکھی نہ کھیلیں۔ اگر صوبوں کا انتظام بھی آپ نے چلانا ہے تو وزرائے اعلیٰ لگانے کا کیا فائدہ ہے۔ اپنی تمام تر توانائیاں مرکز پر مرکوز رکھیں۔
جہاں تک کووڈ جو ویکسین منگوائی گئی ہے، وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں ہے۔ اس کا بروقت انتظام نہ کیا گیا تو بے شمار مسائل پیدا ہونگے۔
…………………… (ختم شد)