مقام ِعبرت
آج کل ایک دینی مدرسہ میں بزرگ معلم کے ہاتھوں زیادتی کا شکار بچے کی کہانی زبان زد عام ہے۔ سوشل میڈیا پر تو ٹاک آف دی ٹاون بنی ہوئی ہے اس واقعہ کو مختلف زاویوں کے ساتھ چسکے لے لے کر بیان کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف مدرسوں کے ماحول کو لتاڑہ جا رہا ہے تو دوسری طرف لبرل تعلیمی اداروں کا مدرسوں سے موازنہ کیا جا رہا ہے ۔کبھی مدرسہ کے مولوی کو اور سکول کے استاد کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے اور اس پر لچھے دار بحث چھیڑ دی جاتی ہے لیکن میں اس کے ایک اور پہلو پر بات کرنا چاہتا ہوں صدر میں واقعہ مدرسہ کے معلم مفتی عزیز الرحمن کی عمر 70 سال کے قریب ہو گی وہ 40 سال سے بچوں کی تدریس سے منسلک ہیں ہزاروں طلباء ان کے شاگرد ہوں گے اللہ تعالیٰ نے انھیں بڑی عزت سے نواز رکھا تھا معاشرہ میں ان کی بڑی تکریم تھی ان کی اپنی جوان اولاد ہے نہ جانے ساری عمر عزت کمانے والا عمر کے آخری حصے میں اس قدر کیوں بے عزت ہو گیا کہ آج ہر کوئی تھو تھو کر رہا ہے۔
ساری زندگی کی کمائی غارت ہو گئی بلکہ پورا خاندان کہیں منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہا انسان کو ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے اس کی پکڑ کسی وقت بھی عمر کے کسی حصے میں بھی ہو سکتی ہے جن لوگوں کے عیبوں پر اللہ نے پردے ڈال رکھے ہیں وہ خدا کا شکر ادا کریں وہ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں ورنہ ایک سیکنڈ لگتا ہے آپ کی ساری عمر کی کمائی غارت ہو سکتی۔ ہم تماشہ گیر لوگ ہیں ہر ایک کا تماشہ لگا کر اس میں تفریح کا پہلو نکالتے ہیں اور پھر اس پر ٹھٹھہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے عیب چھپانے کا کہا ہے اگر آپ لوگوں کی برائیوں کو چھپائیں گے تو اللہ آپ کے عیبوں کو ظاہر نہیں ہونے دیں گے۔ بحیثیت معاشرہ ہم اچھائیوں پر کان نہیں دھرتے اور برائیوں کا خوب چسکے لے لے کر پرچار کرتے ہیں جس سے مزید برائیاں جنم لیتی ہیں۔ مفتی عزیز الرحمن والے معاملہ میں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے ابھی کسی کو کوئی پتہ نہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں اپنے مقصد کے حصول کیلئے ہم کسی بھی حد سے گزر جاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ مفتی عزیز کو مدرسے سے نکالنے کیلئے ٹریپ کیا گیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مولانا کئی بچوں کی زندگیاں تباہ کر چکے ہوں اور آخر کار پکڑ میں آگئے ہوں۔ ایک طرف مولانا سے پڑھنے والے سارے بچے مشکوک ہو گئے ہیں دوسری طرف باپ بیٹے کس کرب سے گزر رہے ہوں گے وہ کس طرح ایک دوسرے کا سامنا کرتے ہوں گے۔ اب باپ اور تینوں بیٹے گرفتار ہیں پولیس کو چاہیے کہ اس پر تماشہ لگانے کی بجائے جلد از جلد اس کی تفتیش مکمل کرکے اگر مولانا قصوروار ہیں تو انھیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے اور اگر ان کو راستے سے ہٹانے کے لیے ان پر الزام مینج کیا گیا ہے تو اس کے ذمہ داران کو نشان عبرت بنا دیا جائے تاکہ آئندہ سے کوئی کسی پر الزام نہ لگا سکے۔
مولانا کے واقعہ سے ہمیں ایک سیاستدان کا واقعہ یاد آگیا لاہور سے دو بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے جو کہ اب اس دنیا میں نہیں رہے جو بیرون ملک پاکستان کے سفیر رہ چکے تھے جن کا شاندار خاندانی پس منظر تھا ان کی شادی پاکستان کے صف اول کے صنعتکار خاندان میں ہوئی تھی۔ عمر کے آخری حصے میں ڈی ٹریک ہو گئے اور ایک سیاسی حسینہ سے عشق کر بیٹھے اور اس عشق میں اپنا سارا کچھ گنوا بیٹھے۔ اس خاتون کو گاڑی پلاٹ اور نہ جانے کیا کچھ دینے کے بعد اس کو مخصوص نشستوں پر ایم این اے بھی بنوا دیا اور خود الیکشن ہار گئے اور پھر کیا ہوا کہ موصوفہ نے اگلا گھر دیکھ لیا اور وہ ہاتھ ملتے رہ گئے اور موصوفہ سے ریکوری کے چکروں میں اپنا سب کچھ عیاں کر بیٹھے۔ ضعیف العمری میں زندگی بھر کاساتھ نبھانے والی شریک حیات نے طلاق لے لی اور موصوف تنہا رہ گئے۔محل نما گھر میں بدنامی کا داغ لیے موصوف داغ مفارقت دے گئے اس طرح کے سارے واقعات عبرت کا درس ہوتے ہیں لیکن ہم انھیں شغل کے طور پر لیتے ہیں ہمارے سامنے ایک اور مثال مقام عبرت کا نشان ہے اللہ تعالٰی نے شریف خاندان کو بڑی عزتوں رفعتوں سے نوازا جس کا سیاست میں کوئی آگا پیچھا نہ تھا اللہ نے اسے دو دفعہ سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلی بنایا بلکہ ایک دفعہ نگران وزیر اعلی بھی رہے‘ تین دفعہ ملک کے وزیر اعظم رہے بھائی تین بار وزیر اعلی بنے کئی رشتہ دار وزیر مشیر رہے بلکہ وہ جس پر ہاتھ رکھتے اسے ممبر پارلیمنٹ بنا دیتے۔
اس ملک میں دو تہائی اکثریت بھی ان کے حصے میں آئی لیکن دوسری طرف بے کسی کا یہ عالم کہ نہ والد کے جنازے میں شریک ہو سکے نہ والدہ کی میت کو کاندھا دے سکے اور عمر کے آخری حصے میں دیار غیر میں زندگی گزار رہے ہیں ہم سب ان واقعات کو شغل کے طور پر لیتے ہیں لیکن یہ اللہ کی پکڑ ہے اور عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں ویسے آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی سر چھپانے کیلئے سرگرم ہے تو کوئی اثاثے چھپانے کیلئے لیکن ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو خفیہ شادیوں پر پردہ پوشی کر رہے ہیں۔ ان کو بھی فکر کرنی چاہیے دنیا مقام عبرت ہے تیز ہوائوں میں اگر پردے اڑ گئے تو ان کی بھی پردہ داری پر صرف حرف نہیں حروف آئیں گے کیونکہ الیکشن سر پر ہے اور اثاثوں میں شادیوں کا ذکر بھی لازم ہے۔
٭…٭…٭