سجّی وِکھا ئو کھبّی مارو پالیسی
نیا پاکستان کی پہلی حکمتِ عملی کے تحت یوٹرن کی بے مثل پالیسی نے ماشاء اللہ کھڑکی توڑ کامیابی حاصل کی اور ٹریفک کے اس معمول کے اشارے کو ضرب المثل بنا کر چھوڑا۔ اب دوسری حکمت عملی پنجابی زبان کے ایک محاورے ’’سجّی وِکھاکے کھبّی مارنا‘‘ کی بنیاد پر استوار کی گئی ہے۔ یہ پالیسی انشاء اللہ چار دانگ عالم میں ’’نیاپاکستان‘‘ کے جھنڈے گاڑے گی اور حاسدین کے عملاً چودہ طبق روشن کر دیگی۔ جب اس ماہ کے آغاز میں پاکستان کے سالانہ گروتھ ریٹ کے یکدم چار فیصد کی شرح تک جا پہنچنے کے ڈنکے بجانے کا پورے تزک و احتشام کے ساتھ آغاز کیا گیا تو مجھے نئے پاکستان کی سجّی دکھا کر کھبّی مارنے والی دوسری حکمت عملی کی سچی بات ہے‘ بھنک بھی نہیں پڑی تھی۔ اپوزیشن واویلا کرتی رہی کہ یہ براہ راست عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے مگر اس حکومتی دعوے کے ساتھ میرا دل رجائیت پسندی سے بھر گیا اور مجھے آنیوالے بجٹ کی دل خوش کن تصویر اجاگر ہوتی نظر آنے لگی۔ شرح نمو کا بڑھنا تو ملکی معیشت کے استحکام کی ہی دلالت ہوتا ہے۔ شوکت ترین نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے سے پہلے اپنے ایک انٹرویو میں قومی معیشت کی انتہائی پریشان کن تصویر دکھائی تھی اور ساتھ ہی یہ فتویٰ بھی جاری کیا تھا کہ حکومت کی موجودہ اقتصادی و مالیاتی پالیسیاں برقرار رہیں تو پاکستان کی معیشت کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ انہوں نے موجودہ حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو بھی آئی ایم ایف کی لاگو کردہ شرائط کی بنیاد پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس وقت قومی معیشت کو سنبھالنے کیلئے حکومت کا انکے ساتھ سلسلۂ جنبانی جاری تھا۔ انکے بے رحم انٹرویو کے بعد انہیں وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کی پیشکش کی گئی اور اسکے چند روز بعد ہی نوجوان وزیر خزانہ بیرسٹر حماداظہر سے یہ قلمدان لے کر شوکت ترین کے حوالے کر دیا گیا جن کی حمایت میں پرنٹ‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا خاصا متحرک نظر آیا۔ ان سے وابستہ رجائیت پسندی یہی تھی کہ ان کا ایک منجھے ہوئے سیاست دان اور اقتصادی ماہر کی حیثیت سے قومی معیشت کی نبض پر ہاتھ ہے اس لئے وہ پوری مشاقی کے ساتھ اسکی ہر ٹیڑھی کل سیدھی کردینگے اور ہمیں آئی ایم ایف کے ظالم شکنجے سے بھی نجات دلا دینگے۔
انکے وزیر خزانہ بننے کے چند روز ہی بعد قومی معیشت کے حوالے سے دل خوش کن خبریں آنے لگیں۔ پہلے شرح نمو جست بھرتے ہوئے چار فیصد سے بھی آگے بڑھنے کا قوم کو تفاخر کے ساتھ منظر دکھایا گیا۔ پھر وزیر خزانہ کی جانب سے قوم کو مہنگائی سے خلاصی ملنے کی نوید بھی سنادی گئی۔ اپوزیشن شش و پنج میں ڈوبی نظر آئی تو گورنر سٹیٹ بنک نے بھی شرح نمو چار فیصد تک پہنچنے کی تصدیق کر دی جس کے بعد ناقدین و حاسدین کیلئے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہی۔ سو براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی ڈسی ہوئی قوم کو یک گونہ اطمینان ہوا کہ اب عوام دوست بجٹ انکی ماضی کی ساری کلفتیں اور دلدّر دور کر دیگا۔ شوکت ترین صاحب نے یہ اعلان کرکے قوم کا خون سیروں بڑھادیا کہ ہم نے آئی ایم ایف کی ناروا شرائط قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ قوم کیلئے تو یہ بلیّوں اچھلنے کا موقع تھا‘ بے صبری سے بجٹ کا انتظار ہونے لگا۔ اور پھر وہ مرحلۂ شوق آن پہنچا جس کے ذریعے قوم اپنے مقدر سنورنے کا مژدہ جانفزا سننے کیلئے بے تاب تھی۔ شوکت ترین صاحب نے اپوزیشن کے شورشرابے کے دوران دو گھنٹے لگا کر اپنی بجٹ تقریر قومی اسمبلی کے ایوان میں مکمل کرلی ا ور جب اس میں موجود اعدادوشمار جانچنے کا مرحلہ آیا تو عقدہ کھلا کہ اس میں اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ بنا کر 383‘ ارب روپے کے نئے ٹیکس بے چاری‘ دکھوں ہاری قوم کے کندھوں پر ڈالنے کا اہتمام کر دیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ اس ’’عوام دوست‘‘ بجٹ میں متعدد اشیاء پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی ہے‘ چینی پر رٹیل سطح پر نیا ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ خام تیل کی درآمد پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لاگو کیا گیا ہے اور پٹرولیم لیوی میں ساڑھے پینتیس فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ دل ناتواں نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ بجٹ دستاویز کی ورق گردانی کی تو عقدہ کھلا کر مجوزہ بجٹ میں ٹیکس محصولات کا ہدف پانچ کھرب 829‘ ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جو گزرنے والے مالی سال کی نسبت 24 فیصد زیادہ ہے جبکہ انکم ٹیکس کی مد میں 116‘ ارب روپے کے اضافی ٹیکس تجویز کئے گئے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ بجٹ میں سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 215‘ ارب روپے کے اضافی ٹیکس بھی تجویز کئے گئے نظر آئے۔ دل ناہنجار کو گہری آہ بھرنے کی بھی ہمت نہ ہوسکی‘ کیونکہ ’’سجّی دکھا کر کھبّی مارنے‘‘ کی اصطلاح صادق ہوتی نظر آئی۔
اگلے روز ہمارے افلاطون وزیر خزانہ نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کی اور یہ اعتراف کرتے ہوئے ذرّہ بھر حجاب محسوس نہ کیا کہ اب ہمارے لئے آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر نکلنا ممکن نہیں۔ ان کا پس و پیش کے ساتھ قوم کیلئے یہی پیغام تھا کہ آئی ایم ایف کی ناروا شرائط کے ساتھ بندھے رہنا ہماری مجبوری ہے۔ گویا وہ چھانٹا پکڑ کر ہمیں جو بھی ناچ نچوائے گا ہم گردن جھکا کر اسکی تعمیل کرتے رہیں گے۔ بجٹ میں لاگو کردہ اضافی ٹیکسوں کا جائزہ لیں تو یہ سب آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع ہی نظر آئینگے۔ بزرگ وزیر خزانہ نے بجٹ کی اس حکمت عملی کے تحت حکومت کی یوٹرن پالیسی پر بھی کوئی آنچ نہیں آنے دی اور سجّی دکھا کر کھبّی مارنے کی پالیسی کیلئے بھی راستہ ہموار کردیا۔
ارے صاحب! قوم کے منتخب نمائندوں نے تو بجٹ کی ضخیم کتاب ایک دوسرے کو مار کر اور گالی گلوچ کرکے اپنے کتھارسس کا اہتمام کرلیا ہے۔ راندۂ درگاہ عوام اب نئے اور اضافی ٹیکسوں کی ٹوٹنے والی افتاد پر کس دیوار کے ساتھ ٹکریں مار کر اپنی ارواح عالم بالا کو پہنچانے کا اہتمام کریں…؎
اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
یار لوگوں کو تو اب بجٹ تقریر اور قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے فنانس بل میں واضح تضاد نظر آنے لگا ہے اور وہ دیدے پھاڑ پھاڑ کر یہ واویلا کر رہے ہیں کہ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں جن اشیاء پر 10 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا گیا‘ فنانس بل میں یہ سیلز ٹیکس 17 فیصد لگا ہوا نظر آرہا ہے۔ ارے بھئی! مزید کھوج لگائو گے تو اپنا دل فگار کرنے کا ہی اہتمام کرو گے۔ ملک میں بے روزگاری کا پہلے ہی یہ عالم ہے کہ ایک وفاقی محکمہ میں نکلنے والی دو چار سو اسامیوں پر آنیوالی درخواستیں پانچ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہیں۔ اور ماشاء اللہ اب وسیم اکرم پلس نے پنجاب میں بھی بے روزگاری کے بے لگام ہونے کا اہتمام کر دیا ہے۔ یہاں حجاموں اور بیوٹی پارلرز کی رجسٹریشن اور لائسنسنگ لازمی قرار دیکر اس کاروبار سے وابستہ افراد کو بھی بے روزگاروں کی وسیع و عریض لائن کی جانب دھکیلنے کا بحسن و خوبی اہتمام ہو گیا ہے۔ اس سے حکومت کو یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ ایسے پبلک مقامات پر اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے عوام الناس کو حکومتی پالیسیوں کیخلاف پہلے کی طرح اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع نہیں مل پائے گا۔ سو سجّی دکھا کر کھبّی مارو اور عوام کو بدحال کرکے سکون سے حکمرانی کرو…ع
گلیاں ہوون سنجیاں‘ وِچ مرزا یار پھرے
٭…٭…٭