فنڈز کا معاملہ ، وفاق اور سندھ میں افہام تفہیم کی ضرورت
فنڈز کے معاملے پر وفاق اور سندھ ایک بار پھر آمنے سامنے آگئے، دونوںکا اپنا اپنا موقف ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چودھری فواد نے کہا ہے کہ ’’جو پیسہ بھی سندھ سرکار کے حوالے کیا جاتا ہے وہ بیرون ملک سے برآمد ہوتا ہے ، بدقسمتی سے سندھ کے دشمن ہی سندھ پر راج کر رہے ہیں۔‘‘ اسکے برعکس سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ’’سندھ کو پیسے این ایف سی کے تحت ملتے ہیں ، پی ٹی آئی کا احسان نہیں ، وزیر اعلیٰ سندھ آواز اٹھا رہے ہیں تو اچھا ہے ، وہ صوبے کا حق مانگتے ہیں۔ ‘‘
پانی کا مسئلہ ہو یا فنڈز کا ، صوبوں کو آئین کے مطابق حق ملنا چاہیے تاہم صوبائی اور مرکزی قیادتوں کو تحمل کا مظاہرہ ضرور کرنا چاہیے کیونکہ تنقید برائے تنقید سے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ سندھ حکومت نے پہلے پانی کی تقسیم پر واویلا کیا ’’ارسا‘‘ کی طرف سے حقائق واضح کیے جانے پر درست معلومات لوگوں تک پہنچیں۔ اب فنڈز کی تقسیم کے معاملہ پر سندھ پھر وفاق کے سامنے کھڑا ہے۔ سندھ حکومت صوبے کے حقوق نہ ملنے کی ساری ذمہ داری وفاقی حکومت پر ڈال رہی ہے جس پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کراچی پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس حوالے سے وفاق کو بری الذمہ قرار دیا۔ مرکز اور صوبوں میں باہمی رابطہ ، ہم آہنگی بہت ضروری ہے ، اگر تو سندھ کی شکایات جائز ہیں تو ازالہ کیا جانا چاہیے جس کیلئے مجاز آئینی فورم موجود ہیں۔ اگر سندھ حکومت محض وفاقی حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے سب کچھ کر رہی ہے یا وفاق سندھ کو دبائو میں لانے کے لیے سب کچھ کر رہا ہے تو یہ محض سیاست برائے سیاست ہے ، تاہم وفاق اور صوبوں میں جہاں بھی اختلاف ہے یا کسی بھی صوبے کو کوئی شکایت ہے تو اس کے ازالے کے لیے مجاز فورم سے رجوع کیا جا سکتا ہے کیونکہ تنقید برائے تنقید سے معاملات تو حل نہیں ہوتے البتہ بگاڑ اور رنجشوں کی مزید راہیں کھل جاتی ہیں لہٰذا وفاق صوبوں سے متعلق آئینی تقاضوں کا بھرپور احترام کرنا چاہیے اور ضد و ہٹ دھرمی سے گریز کرنا چاہیے ورنہ جمہوری نظام کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔