آ پ یہ سن کر حیر ان مت ہوئیے کہ اس وقت صرف تیس روپے میں تمام ماہ میس میں کھانا فراہم ہوتا تھا اور دنیا کی ہر ڈش ہر ایک کو مہیا ہوتی تھی ۔بہاولپورمیں انسان کی قدرزیادہ نظر آئی ،گوجزانوالہ میں تو ہمیں ریلوے کے کانسیشن فارم تو کجا،ٹکٹوں کے لیے ہم قطاروں کے آخر میں کھڑے ملتجییانہ انداز میں نظر آتے جبکہ بہاولپور کاسٹیشن ماسٹر ہمیں نہ صرف میڈیکل سٹوڈنٹ سمجھتے ہوے اپنے کمرے میں چائے پلاتا بلکہ خود کانسیشن فارم بھی بھر دیتا اور ہم طالب علموں کو اپنی موجودگی کا احساس ہوتا اور ہم صنعتی ترقی والے اپنے شہروںکی یے قدری کو بھول جاتے ہاں کبھی مارکس ،اینگلز ضرور یاد آتے۔یاد آیا کے ان چھہ سالوں میں جمہوریت کی طرح شائد ہی ٹرین پٹٹری سے اتری اور کوئی ٹرین حادثہ ہوا ہو۔بہاولپور ہمیں سکون دیتا جبکہ اپنے شہر کی ہماہمی اور زورا زوری میں ہم کہیں کھو جاتے۔ہم وہاں ہوسٹل سے ملحقہ کینٹ میں ہر مہینے ایک فری فلم جو ایک بڑی تفریح ہوتی ، صرف ہمسایہ ہونے کے طفیل مستفید ہوتے، آخر ہمسائے جو ٹھہرے اور ہاں اس وقت تابش الوری ایم پی اے ہمارے میڈیکل کالج میں مقرر ہوتے اور بے تکلف ہوتے چائے سے تواضع کرتے اور ہمہ وقت ٹائم دینے کے لئیے تیار اور ادھر ،ہمارے آبائی شہروں کے نمائندوں کو چراغ لے کرڈھونڈنا پڑتا پھر بھی نہ باشد۔کے بڑے لوگ جو ٹھہرے ،کند ہم جنس با ہم جنس پرواز۔انہی دنوں ، بہاولپور کی ایک پی پی پی کی ایم پی اے سے کام تھا اور یقین نہیں آ رہاتھا جب ان کو پرنسپل کے دفتر میںہم سے پہلے موجود پایا۔تو انہوں نے ہمیں اپنی گفتگو سے بڑی متانت وشفقت سے آگاہ کیا تو تب ہمیں سمجھ آئیں اخلاقیات و احساس ذمہ داری ۔مجھے یاد ہے کے ان دنوں ،ہمیں کئی کئی میل پیدل پریڈ کی شکل میں جانا پڑتا تھا کیوںکہ ہمارے کالج کی عمارت جوچشتیاں روڈ پر تھی ،وہ ہمارے ہوسٹل سے کوئی کم ا زکم کوئی پانچ کلو میٹر سے بھی دور تھی اور سوائے پیدل مارچ کیے اور وہ بھی ہم اکثر باجماعت ، یہ فاصلہ خراماں خرامان ایسے پیدل چلتے تھے جیسے کوئی مشکل کام ہی نہ ہو ۔اور یقین کریں ہم اکثر تمام سٹوڈنٹ چونکہ اکٹھے ہی ہوسٹل سے برآمد ہوا کرتے تھے،اس لیے اکٹھے عین مقررہ وقت پر کلاس روموں میں پہنچ جایا کرتے تھے اور شائد کوئی سٹوڈنٹ کبھی لیٹ ہوا ہو ،ورنہ آج کے مشینی دور میں تو شائد ویسے ہی اتنا لمبا روزانہ پیدل چلنے سے کسی خسینہ کے بے پرواہ انکار کی سی صورتہال پیش آسکتی تھی یا اسے بنیادی حقوق کے خلاف قرار دلانے کے لیے کسی عدالت میں درخواست جمع بھی ہو چکی ہوتی۔ کسی کے پاس کار،تو بہت دور کی بات، کوئی ایک بھی موٹر سائیکل نہیں ہوتی تھی۔ایسے میں سب امیر و غریب برابر ٹھہرتے تھے۔ایک دوسرے سے مقابلہ پڑھائی میں بس ہوتا تھا۔کیوںکہ تیرے دربار میں پہنچے تو سھی ایک ہوے کے عین مطابق،استاد کسی میں کوئی فرق کبھی نہیں کرتے تھے۔ہمارے استاد،پروفیسر نور صاحب،جو پاکستان کے پہلے ایف سی پی ایس تھے اور گولڈ میڈالسٹ تھے، وقت اور اصول کی پابندی میں بے مثال تھے ایسے لوگوں کے بارے میں یہ کہنا بجا ہو گا ،کہ وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھو دئے،ڈھونڈاتھا آسماں نے جنہیں خاک چھان کے ۔ہمارے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ بعد میں ہمارے ایک کلاس فیلو ،ڈاکڑ اعجاز بخاری، جو کے اس وقت ڈے سکالر تھے ،دھان پان سے، سادہ مزاج سے تھے،بعد میں اسی کالج کے پرنسپل بنے ،اسی طرح کئی دوسرے ڈاکٹروں نے بھی میڈیکل میں نام کمایا لیکن ہمیشہ نام ان؎ ہی کا رہتا ہے اور رہا، جو عوام کے لئیے بغیر لالچ،خوف کے کچھ کرگزرتے ہیں اور جن کے جذبے جوان اور لگن پاکستان کی نوجوان نسل کو صحیح اور پر خلوس تعلیم اور میڈیکل کی اخلاقیات کا درس تھا ۔کچھ ہماری طرح پاکستان میں رہ کر اور کچھ باہر کے ملکوں میں رہ کر پاکستانی حب الوطنی کے تلقین شاہ بننے کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹرادیب رضوی، ایمیرئٹس پروفیسر ڈاکڑ امیر دین،ڈاکڑ رشید چودھری،، ڈاکڑ ظفر حیدر جیسی کئی شخصیات ہمارے سامنے ایسی روشن مثالیں ہیں، جنہوں نے مشکل سے مشکل حالات میں پاکستان رہ کر کام کرنے کو ترجیح دی اور کام کیا اور جانی مالی ،ہر قسم کی قربانی دی ،اور اپنے وطن کی مٹی سے رشتہ برقرار رکھا۔، جن کے بارے میں بجا طور کہا جاسکتا ہے کہ ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہوں جسے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38