لداخ میںہونے والے حالیہ واقعات کا جائزہ لیا جائے تو یہ صرف بھارت اور چین کے مابین ہونے والی سرحدی کشیدگی نہیں بلکہ ایسی صورتحال ہے جو آنے والے وقت میں نہ صرف علاقے کے جغرافیے بلکہ تمام خطے کی سیاست پر اثر انداز ہوگی۔ یہ وقت پاکستان اور کشمیر کے لیے بھی نہایت اہم ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اپنے پتے کیسے کھیلتا ہے اور اس تمام صورتحال سے اپنے اور اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے کیا فوائد حاصل کر سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک کی زندگی میں ایسا فیصلہ کن وقت دہائیوں کی ایک آدھ بار ہی آتا ہے۔
یہ سب اتنا اہم کیوں ہے ، یہ جاننے کے لیے سب سے پہلے اس علاقے کا جغرافیہ سمجھنا ضروری ہے۔ پاک بھارت تعلقات کا ذکر کرتے ہی سب کے ذہن میں کشمیر آ جاتا ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر ہی بھارت اور پاکستان کے تمام اختلافات کی بنیادی وجہ ہے۔ لیکن اس تمام علاقے کو دیکھیں تو یہ صرف کشمیر نہیں بلکہ اسکے ساتھ جموں اور گلگت بلتستان کے علاقے بھی ہیں۔ ان کے ساتھ ہی ایک اہم علاقہ ۔’’ اکسائی چن ‘‘ ہے جس پر بھارت دعویٰ کرتا ہے لیکن یہ علاقہ 1962 کی بھارت چین جنگ کے بعد سے چین کے کنٹرول میں ہے۔ کشمیر کا بڑا علاقہ بھارت کے زیر تسلط ہے جبکہ کشمیر کا کچھ حصہ، جموں کا کچھ علاقہ اور گلگت بلتستان 1948 سے پاکستان کے کنٹرول میں ہیں۔1963 میں پاکستان اور چین کے مابین ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت پاکستان نے گلگت سے اوپر کا 750 مربع میل کا علاقہ جو ’’ شکس گام‘‘ کہلاتا ہے چین کو دے دیا تھا۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان اور چین کے درمیان سرحدی تنازعہ ختم ہو گیا اور اسطرح یہی معاہدہ ’’ شاہراہ قراقرم ‘‘ کی بنیاد بنا۔ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ شکس گام، بلتستان اور اکسائی چن کے درمیان میں ’’سیاچن گلیشئر‘‘ بھی واقع ہے۔
بھارت نے اگست 2019 میں جو غیر قانونی اقدامات کیے ان میں اس نے کشمیر کے ساتھ ساتھ لداخ کی خصوصی اور متنازعہ حیثیت کو ماننے سے انکار کر تے ہوئے تمام لداخ کو اپنے وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دے دیا تھا بشمول لداخ کے ان علاقوں کے جو بھارت کے کنٹرول میں نہیں اور جہاں سے CPEC کا گزر بھی ہے ۔بیانات اور نقشہ جات سے ایک قدم آگے بڑھ کربھارت نے لداخ کے اپنے زیر تسلط علاقے میں ایسی سڑکیں وغیرہ بنانا شروع کر دیں جو فوجی لحاظ سے چین کے لیے خطرہ ہو سکتی تھیں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ گزشتہ دنوں میں بھارت نے اپنے طور پر یا پھر امریکی آشیرباد کے زیر اثرآ کر CPEC پر بھی کھل کر اور یہ کہہ کر اعتراضات کرنا شروع کر دیے تھے کہ جن علاقوں میں اسکی تعمیر ہو رہی ہے وہ بھارت کی ملکیت ہیں۔ مودی نام کے ’’ سیانے کوے‘‘ نے یا تو یہ سوچا نہیں تھا کہ اس کی ان احمقانہ حرکات کا جواب چین اسطرح سے دے گا یا پھر بھارتی فیصلہ سازوںکا خیال تھا کہ کہ چین بھی احتجاج اور تقاریر کر کے خاموش ہو جائے گا اور کوئی عملی اقدام نہیں کرے گا۔ لیکن یہ شر انگیزیاں اور چالاکیاں بھارت کے گلے پڑ گئی ہیں۔ اور اس وقت بھارت مشہور انگریزی محاورے " Standing between the devil and the deep blue sea" کی بہترین مثال بنا ہوا ہے۔
یہ امر بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ امریکہ مسقبل میں بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن بجائے اس کے کہ امریکہ اور بھارت مل کر اور اپنی سہولت کے مطابق چین کے خلاف کوئی قدم اٹھاتے ، چین نے بھارت اور امریکہ کے ارادے بھانپ کر اس تنازعہ کے لیے وقت کا انتخاب اپنی پسند سے کر لیا ہے۔ اسکے بعد سے اب تک چین کے ہاتھوں بھارت کی جو درگت بنی ہے وہ ساری دنیا نے دیکھی ہے۔بھارت اور چین کے مابین ہونے والی 1962 کی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ دونوں ممالک میں ایسی کشیدگی پیدا ہوئی ہے جس میں اموات ہوئی ہیں۔ ( اطلاعات ہیں کہ بھارت کے ایک کرنل سمیت سو کے قریب فوجی جہنم واصل ہوئے ہیں)۔ اس جھڑپ میںدونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود ’’ انڈر سٹینڈنگ‘‘ کی وجہ سے آتشیں اسلحہ استعمال نہیں ہوا اور چینی افواج نے ’’ ڈنڈوںسوٹوں‘‘ کی مدد سے ہی اتنے بھارتی فوجیوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ چین نے اپنی افواج کو ضرورت پڑنے پر ہر طرح کا اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ رہ گیا سوال امریکہ بہادر کا تو وہ اس سب سے فائدہ اٹھانے کی کوشش تو ضرور کرے گا لیکن ایک تو کرونا کی وجہ سے اسکی بدحال معیشت مزید بدحالی کا شکار ہے ، اور دوسرا امریکی الیکشن بھی سر پر ہے اور الیکشن میں عوام کی عدالت میں جانے سے قبل امریکی صدر اپنے وعدوں کے مطابق افغانستان جنگ سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اس لیے لگتا نہیں کہ وہ اس تنازعہ میں کوئی بہت زیادہ عملی شمولیت کرنے کی پوزیشن میں ہونگے۔ ہم بنا کسی تردد کے کہہ سکتے ہیں کہ چین نے بہترین وقت کا انتخاب کیا ہے۔
بھارت کی بات کریں تو وہ چین کے فوری رد عمل کی وجہ سے بری طرح سے پھنس کر رہ گیا ہے۔ ایک عرصے سے بھارت اپنی چالاکیوں سے دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتا آیا ہے کہ کشمیر اور لداخ وغیرہ کے تنازعات بھارت کا اندرونی معاملہ ہیں ۔ اب اگر بھارت چین کے خلاف کسی عالمی فورم میں آواز اٹھاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خود ان علاقوں کو ’’عالمی تنازعہ‘‘ تسلیم کر رہا ہے۔ اور اگر بھارت ایسا نہیںکرتا تو وہ طاقت کے زور پر چین سے یہ علاقے واپس لے نہیں سکتا۔ اس کے علاوہ کشمیر کا مسئلہ عملی طور پر پاک بھارت تنازعہ سے ایک’’ تکون‘‘ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اس تکون کا تعلق چین اور CPEC سے ہے اس لیے ظاہر ہے کہ امریکہ ہر صورت اس پھڈے میں کچھ نہ کچھ ٹانگ تو اڑائے گا ہی۔ اس طرح بھارت کے ہاتھ سے اہم علاقے بھی گئے اور بھارت نہ بھی چاہے لیکن مسئلہ کشمیر میںبھار ت اور پاکستان سمیت چین اور امریکہ کے آمنے سامنے آنے کی وجہ سے عالمی برادری خودبخود کشمیر کو ایک بار پھر اہم اور حل طلب عالمی مسئلہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔ پاکستان اگر اس تمام صورتحال کو اپنے اور کشمیر کے مظلوم عوام کے حق میں استعمال کرنا چاہتا ہے تو کشمیریوں کی آزادی کے لیے عالمی برادری میں آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ عملی اقداما ت کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ابھی نہیں تو پھرشاید کبھی نہیں۔
٭…٭…٭
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024