عباس اطہر شاہ شعبۂ صحافت میں بڑا نام تھے۔اپنی ایک الگ پہچان رکھتے تھے۔ان کا سیاسی تعلق پیپلز پارٹی سے رہا۔جو چیز انہیں اپنے شعبے میں ممتاز کرتی تھی وہ ان کا سرخیاں جمانے کا رنگ تھا۔1970ء کے انتخابات میں جب پیپلز پارٹی نے پنجاب میں غالب ترین اور لاہور شہر میں مکمل اکثریت حاصل کرلی تو شاہ جی نے قومی اسمبلی کے انتخابات میں "برج الٹ گئے" اور صوبائی اسمبلی کے نتائج سامنے آنے پر "ٹھاہ"کی سرخی جما کر اخبار کو چار چاند لگا دیئے۔اس سے قبل وہ ذوالفقار علی بھٹو کی لاہور میں کی جانیوالی ایک تقریر پر"اوھر تم ادھرہم"جیسی سرخی جماکر بڑا نام کما چکے تھے۔ نظریاتی جھکائو بائیں بازو کی سیاست کی طرف تھا۔صحافت کے علاوہ ان کا تعلق شعروادب سے بھی تھا۔انقلابی شاعر تھے۔جب ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا تو پارٹی کے بے شمار کارکن زیر عتاب آگئے۔زیر عتاب شائد چھوٹا لفظ ہو،حقیقت یہ ہے کہ وہ نہ صرف کوڑوں ،عقوبت خانوں ،زنجیروں ،ہتھکڑیوں ،بیڑیوں کی خوراک بن گئے بلکہ ان کے گھروں تک میں آسیب نے ڈیرے ڈال لئے۔ایسے ماحول میں شاہ جی نے ضیاء الحق کے خلاف ایک بڑی ہی انقلابی نظم لکھ ڈالی جس کاٹیپ کامصرع تھا کہ" ـ ـایک حرف غلط ہے مٹادو اسے"۔ اور پھر چند ہی دنوں میںضیائی سرکارنے شاہ جی کو دھر لیا۔اور لاہور کے شاہی قلعہ کی پیچ دار گلیوں اور تفتیشی کوٹھڑیوں میں ان کے ساتھ گھنائونا سلوک کیا۔ جہانگیر بدر،ملک مہدی حسن ،اسلم گل ،غلام عباس، آصف بٹ اور دیگر کارکنوں کی طرح وہ یہ شرمناک سلوک برداشت کرتے رہے۔تشدد کی ایک اور قسم تھی جس کا سامنا شائد انہیں ہی کرنا پڑاجب ایک روز ایک پولیس والے نے زناٹے دار تھپڑ کے ساتھ ماں بہن کی گالیاں بھی بکیں۔ اس کے بعد تو شاہ جی کا جیسے دل ہی بجھ گیا ۔تفتیشی مراحل سے گذرنے کے بعد جب شاہی قلعے سے رہا ہوئے تو گم سم سے ہوگئے ۔پھر ایک روز معلوم ہوا کہ غریب الوطن ہوکر امریکہ جابسے ہیں۔انہیں دنوں میں بھی MRDکے پلیٹ فارم سے قید اور کوڑوں کی سزا کے علاوہ مہینوں زیر زمین رہا ۔کچھ آزادی نصیب ہوئی تو میں بھی امریکہ چلا گیا۔نیویارک جیسے شہر میں کسی ہمدم کو ڈھونڈنا تقریبا ناممکن ہوتاہے ۔کچھ دنوں YMCAمیں رہاایک روز کافی پینے ڈائون ٹائون" مین ھٹن" کے علاقے چلا گیا جو نیویارک کا دل کہلاتا ہے۔ایک پاکستانی قسم کا کوئی بندہ نظر آیا۔اسے سلام عرض کیا ،کافی پینے کی دعوت دی ،مگر وہ مصروفیت کی بنا پر معذرت کرنے لگا۔تاہم اس کی زبانی اتنا ضرور معلوم ہواکہ نیویارک کے سٹی آف بروکلین میں پاکستانیوں کی تعداد شہر کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہے اور Bٹرین کے سٹاپ "فوسٹرایونیوـ" پر پاکستانیوں کی رہائشیں اور کاروبار بھی ہے وہاں پہلی چیز جو نظر آئی وہ مکی مسجد تھی اور دوسری جہلم کے رضا شاہ صاحب کا گراسری سٹور تھا۔گراسری سٹور پر دو ورقی پمفلٹ قسم کے رسالے "نصرت"پر نظر پڑ گئی ۔دیار غیر میں ا س قسم کارسالہ پاکستان کی خوشبو سمیٹے ہوئے تھا۔ جھٹ سے پچاس سینٹ قیمت ادا کی اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھنا شروع کردیا ۔اس کا نام بیگم نصرت بھٹو کے نام پہ نصرت رکھا گیا تھااور "شائع کردہ "کے طور پر عباس اطہر شاہ E.16 سٹریٹ کنگز ہائی وے کا پتہ درج تھا۔فون نمبر بھی مل گیاتو گویا منزل مل گئی ۔شاہ جی کو فون کیا بہت خوش ہوئے,کہا سامان وغیرہ لے کر ابھی آجائواگلے روز میں نے شاہ جی کے دروازے کی گھنٹی بجائی تو بڑی خوش دلی سے گلے لگ کر ملے ۔
گھر میں داخل ہوا تو لاہور کے ایک اور صحافی طاہر اسدی اور رحیم یار خاں بار کے جنرل سیکرٹری پیپلز پارٹی کے صادق طاہر بھی گرمجوشی سے پیش آئے۔یہاں ایک واقعہ کا ذکر کرتا چلوں۔MRDکے قیام کے تقریبا ساتھ ساتھ ہی "سیاسی اسیران رہائی کمیٹی"بن چکی تھی ۔جس کے اصل روح رواں لیاقت وڑائچ ایڈووکیٹ تھے۔ انکے علاوہ دیگر عہدیداران میں میرے علاوہ ملک قاسم مرحوم،نواز گوندل، عبدالرحیم زاہد اور ہمارے مرحوم دوست سیف اللہ سیف وغیرہ شامل تھے۔اس موقع پر سعید آسی ، انجم رشید اور کچھ دیگر صحافی صاحبان نے ایک ایسی فہرست تیار کرنے میں ہماری بہت مددکی جس میں ملک بھر کے سیاسی قیدیوں کے مکمل کوائف دستیاب تھے۔یہی فہرست میں امریکہ جاتے وقت بھی ساتھ لے گیا کہ وہاں آزادی رائے کا بڑا احترام کیاجاتا ہے لہذا میں امریکی میڈیا میں ان قیدیوں کی رہائی کیلئے آواز اٹھائوں گا۔جب میں نے عباس اطہر شاہ صاحب کو اپنا ارادہ بتایا تو انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ امریکہ میں آزادی صحافت موجود ہے لیکن کوئی بھی اخبار معمولی ہویا بڑا ،تمہیں گھاس نہیں ڈالے گا کیونکہ اس وقت امریکہ افغانستان میں روس کے خلاف برسر پیکار ہے۔امریکہ کا میڈیا بہت محب وطن ہے۔وہ کوئی ایسی بات نہ شائع کرتا ہے نہ نشر کرتا ہے جس سے امریکی افواج، CIAیا حکومت کی جنگی پالسیوں پر حرف آئے ۔اس کے باوجود میں نے اپنے طورپر بہت کوشش کی مگر شاہ جی کی بات ہی سچ ثابت ہوئی ۔قومیں جب کسی بھی طرح حالت جنگ میں ہوں تو دشمن کے بیانیئے کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتیں۔اپنی افواج، خفیہ اداروں اور حکومتوں کے موقف کی تائید کرتی ہیں جنگلی مخلوق کی طرح ان پر جھپٹنے کی کوشش نہیں کرتیں۔یہ سب دیکھ کرزندہ اور محب وطن قوموں کی آزادی ء فکر کا مطلب سمجھ گیا۔دوسری ٹرین پکڑی اور براڈ وے کے تھیٹروں کی بھیڑ میں گم ہوگیا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024