نئی نسل میں تحقیق اور تسخیری عمل کا فقدان
اکثر انٹرل نیشنل ٹیلی وژن پروگرامز میں یورپین ممالک کے لوگوں کو عجیب طرح کی حرکتیں کرتے دیکھا ہے ۔کبھی یہ لوگ سمندروں ،دریائوں کی تہہ میں جا کر مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کے ساتھ سیلفی لے رہے ہوتے ہیں ،کبھی درندوں سے بھرے جنگل میں حیاتیات و نباتات پر تجربے کرتے پائے گئے،کبھی پہاڑوں پر سائیکل چلاتے ہیں،کبھی ایک ایک ہفتہ خلاء میں گزار آتے ہیں ،چاند کے بعد مریخ کو تسخیر کرنے پر تلے ہیں ،چین نے ایسی اے ٹی ایم ایجاد کر لی ہے کہ محض شکل دکھانے پر آپ اے ٹی ایم سے پیسے نکال سکتے ہیں ،ایک یورپین شخص نے دو سو چھپن مختلف ڈگریاں حاصل کر کے منفرد اعزاز اپنے نام کر لیا ۔الغرض تحقیق و تجسس کو ان لوگوں نے کسی بھوت کی طرح اپنے سروں پر سوار کر لیا ہے اور یہی بے شمار ایجادات اور ترقی کی بڑی وجہ ہے ،سوچتا ہوں یہ لوگ اتنی بے فکری سے کیسے جان ہتھیلی پر رکھ کر پورا پورا ہفتہ خلاء میں گزار آتے ہیں ،درندوں سے بھرے جنگل میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر تحقیق و تجربے کرنے پہنچ جاتے ہیں ،مچھلیوں کے ساتھ سیلفی لینے سے کیا ہوگا،پہاڑوں پر سائیکل چلا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیںتو جواب ملا کہ یہ لوگ ہر طرح سے مطمئن ہیں ۔ان کو دو وقت کی روٹی کے لالے نہیں پڑے ہوئے ۔ صحت ،تعلیم،روزگار،انصاف کی فکر نہیں ،انہیں اپنی جائیداد پر ناجائز قبضے کا ڈر نہیں،امن و امان کی صورتحال پر اطمنان ہے،چوری چکاری اور رہزنی نہ ہونے کے برابر ہے ۔شہریوں کا معیار زندگی بلند ہے ۔انھیں ٹرانسفارمر،نالی ،سولنگ کے لئے وڈیرے ، چوہدری ، نمبردار ،ممبر کی خوشامد نہیں کرنا پڑتی ،صاف پانی اور معیاری خوراک بآسانی میسر ہے۔جعلی ادویات اور جعلی داکٹر بھی نہیں پائے جاتے،بھتہ خوری کا نظام بھی نہیں ہے۔چائے کی پیالی پر بکنے والے پنچایتی بھی نہیں ہیں گودے ،سردار،وڈیرے کا خوف بھی نہیں ،قانون کی بالادستی ہے اور سب سے بڑ ھ کر ملک میں خودمختار عدلیہ اور نظام احتساب موجود ہے جو بشمول صدر کسی بھی عہدے دار کو اختیارات کے ناجائز استعمال کی اجازت نہیں دیتا ۔امن،اطمینان اور احترام کا ماحول ہے ۔الغر ض ان لوگوں کی تمام بنیادی ضروریات پوری ہیںاسی لئے ان کی اوسطاً عمر ایشیاء کے ممالک کے لوگوں سے کہیں زیادہ ہے اور اس طرح کی عجیب و غریب حرکات کا مقصد تجسس،تحقیق اور منفرد کام کرنے کی لگن ہے ۔خود اعتمادی اور کچھ نیا کرنے کا عزم بچوں کے ذہن میں شروع سے ہی ڈال دیا جاتا ہے ۔ریسرچ،تحقیق اور تسخیر کی طرف مائل کیا جاتا ہے ۔یوں یہــ لوگ انسانیت کی خدمت اور حضرت انسان کے بہتر اور بلند معیار زندگی کے لئے نت نئی پر آسائش اشیاء گاہے بگاہے ایجاد کرتے رہتے ہیں اب اگر ہم ایشیاء اور خاص طور پر وطن عزیز پاکستان کی بات کریں تو اوسطاً عمر پچاس سال بمشکل ،قیام پاکستان سے لے کر ایک ایٹم بم اور چند ہیلی کاپٹر (وہ بھی دوسروں کی ٹیکنالوجی استعمال کرکے)بنانے کے سوا کیا ایجاد کیا؟دماغ ان کا اور ہمارے بچوں کا ایک جیسا ہے ۔ہاتھ پائوں ،زبان،جسم کی ساخت ایک سی ہے تو پھر کیوں ان کے بچے ایجادات کریں،تحقیق،تسخیر اور ریسرچ کریں اور ہمارے بچے دہرے ،غیر معیاری اور متعصب تعلیمی نظام اور استحصالی سسٹم کی بھینٹ چڑھ کر اپنی صلاحیتیں گنواتے رہیں ،کیوں؟اگر ان بچوں کو ان جیسی سہولیات دیں،اعتماد دیں ،خودی دیں ،بچپن میں تحقیق ،تسخیر اور ریسرچ کی طرف مائل کریں تو وہ دن دور نہیں جب نئی نسل قوم کا سر فخر سے بلند کر دے۔لیکن اس سے پہلے آپ نئی نسل کو اعتماد دیں ،خودی دیں ۔آپ کو پرانی نسل کا مائینڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ اگر پرانی نسل اعتماد سے محروم ،سہولیات اور جدید ٹیکنالوجی سے نا واقف اور رٹے رٹائے جعلی تاریخی واقعات اور من گھڑت کہانیاں سننے میں کھوئی رہی ہے تو آپ کبھی بھی آئندہ نسل کو اعتماد اور خودی ڈلیور نہیں کر سکتے لیکن نہیں ہماری ترجیحات کچھ اور ہیں ہمیں تو تھانے کچہری سے فرصت نہیں،نالی سولنگ اور ٹرانسفارمر کے لئے چوہدری،وڈیرے ،ممبر اور نمبر دار کے محتاج ہیں ۔تعصب پر مبنی نظام تعلیم ہمارے گلے پرا ہوا ہے ، گودے ،وڈیرے ،سردار بآسانی زمینیں ضبط کر لیتے ہیں ،بچیوں کے سکولوں کو زبردستی بند کروا لیتے ہیں ،چالیس فیصد لوگ دو وقت پیٹ بھر کر روٹی کو ترستے ہیں،غربت گلی محلوں میں دیوانہ وار رقص کر رہی ہے ،معصوم بچے بٹھوں ،ہوٹلوں اور ورکشاپوں پر اپنا اور قوم کا مستقبل چند رپوں کے عوض نیلام کر رہے ہیں ،نظام عدل کا دوہرا معیار ظالم کو دلیر بنا رہا ہے ،قبضہ مافیا سرگرم ہے ،بھتہ خوری کی رسم تو قیام پاکستان سے ہی چلی آ رہی ہے ،نااہل ،کرپٹ لوگ ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں،دہشت گردی کے بدلے ڈالر لینے والے کمر درد کا بہانہ بنا کر بھگا دیئے گئے ،قومی خزانہ مال مفت دل بے رحم کے مصداق اڑایا جا رہا ہے ،کل کے میٹر ریڈر آج محلوں کے مالک ہیں ،کیا کیا گنوائوں یہاں اندھیر نگری ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے ،ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے ،اندھے مقلدین کی بھرمار ہے ،بریانی کی پلیٹ پر ووٹ دینے والے عام ہیں ،جو ظاہری سی بات ہے بنیادی حقوق کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں ،نمبرداری،وڈیرہ شاہی،چودھراہٹ کے حامی اور تھانہ کچہری کے چٹی دلال کب چاہتے ہیں کہ غریب کا بچہ پڑھ لکھ کر باعزت روزگارکرے،ملک کا خوشحال شہری بنے،قوم کی تعمیر و ترقی میںاپناکرداراداکرے،سائنسدان،ڈاکٹر،انجینئر،قانون دان،ریسرچر،خلاء باز،محقق و دانشور بنے،یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے پورے کا پورا نظام اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ،جب تک نظام ان کے ہاتھ ہے نہ نئی نسل میں اعتماد آئے گا نہ خودی،نہ بہتر مواقع میسر ہوں گے ،نہ نئی نسل تحقیق ،تسخیر اور ریسرچ کی طرف مائل ہوگی ،نہ کوئی ایجاد ہوگی یوں پروں سے محروم یہ شاہین یونہی گمنام رہیں گے اور بلند پروازی کا شوق استحصالی نظام ان سے چھین لے گا؟