نگران حکومتوں کیجانب سے انتخابات میں شفافیت کے نام پر بیوروکریسی میں وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ
نگران حکومتوں نے 25 جولائی کے انتخابات میں شفافیت کے نام پر بیوروکریسی میں وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں تین صوبوں پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان میں بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں جبکہ صوبہ خیبر پی کے میں بھی تقرر و تبادلہ کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں 34 سیکرٹریوں کے تبادلے کئے گئے ہیں جبکہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ میں بھی ردوبدل کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں 30 پولیس اور انتظامی افسران کی خدمات وفاق کے سپرد کی گئی ہیں اور 35 ڈپٹی کمشنر‘ 77 ایڈیشنل آئی جیز‘ ایس ایس پیز‘ ایس پی حضرات اور ایڈیشنل ایس پیز پولیس کو تبدیل کیا گیا ہے۔ ان میں سے 18 پولیس افسران کی خدمات وفاق کے سپرد کی جارہی ہیں۔ اسی طرح سندھ میں 14 سیکرٹری‘ دو ایڈیشنل آئی جی‘ 6 کمشنر‘ 33 ڈپٹی کمشنر‘ 14 ڈی آئی جی اور متعدد ایس پی حضرات تبدیل کئے گئے ہیں جبکہ بلوچستان میں تین سیکرٹری‘ چھ کمشنرز اور 33 ڈپٹی کمشنرز سمیت درجنوں سینئر افسران کے تبادلے کئے گئے ہیں۔ اسکے علاوہ پنجاب کی نگران حکومت نے خاتون ایڈووکیٹ جنرل عاصمہ حامد سمیت گیارہ لاء افسران کو بھی فارغ کردیا ہے اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شان گل کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی اضافی ذمہ داریاں دے دی گئی ہیں۔ پنجاب بار کونسل اور لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو انکے منصب سے الگ کرنے کے اقدام کی مذمت کی ہے اور اسے اختیارات سے متجاوز اقدام قرار دیا ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان میں وسیع پیمانے پر تبادلوں کی منظوری دے دی ہے جبکہ 18 پولیس افسروں کو پنجاب سے وفاق اور 28 پولیس افسران کو وفاق سے پنجاب واپس بھیجنے کی بھی منظوری دی گئی۔ اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف علی خان نے گزشتہ روز خود ہی اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا جن کا کہنا تھا کہ جمہوریت کی مضبوطی اور منتقلی آئین کا جزو ہے۔ انہوں نے اس لئے استعفیٰ دیا ہے کہ انکی موجودگی سے شفاف انتخابات کی راہ میں رکاوٹ کا تاثر نہ ملے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہی نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری انہوں نے الیکشن کمیشن کی معاونت کرتے ہوئے سرانجام دینی ہے۔ اس سلسلہ میں نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصرالملک‘ نگران وزیراعلیٰ پنجاب پروفیسر حسن عسکری اور دوسرے صوبوں کے نگران وزراء اعلیٰ بھی متعدد مواقع پر اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ انہوں نے کوئی مستقل پالیسیاں وضع نہیں کرنی اور اپنے مینڈیٹ کے مطابق منصفانہ و شفاف انتخابات کے انتظامات کے حوالے سے محض روزمرہ کے معاملات نمٹانے ہیں۔ اصولی طور پر تو انتخابات کے انعقاد اور انتظامات کیلئے نگران حکومتیں تشکیل دینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں اور بھارت‘ برطانیہ‘ امریکہ سمیت حکومت وقت ہی انتخابات کے انعقاد تک برقرار رہتی ہے اور اسی کے ماتحت انتخابات منعقد کرائے جاتے ہیں جبکہ انتخابات میں حکومتی پارٹی کو شکست ہو جائے تو وہ آئینی طریقہ کار کے مطابق اقتدار نئی حکمران جماعت کو منتقل کرکے گھر واپس چلی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک یہی طریقہ کار رائج رہا ہے جبکہ ماورائے آئین اقدام کے تحت اقتدار میں آنیوالے جرنیلی آمر بھی اپنی نگرانی میں ہی انتخابات کراتے رہے تاہم ضیاء الحق نے 1985ء کی غیرجماعتی اسمبلی کے ذریعے سارے اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کرانے کیلئے 8ویں آئینی ترمیم منظور کرائی جس میں جہاں صدر کو دفعہ 58(2)B کے تحت اسمبلیاں توڑنے اور منتخب حکومتوں کو گھر بھجوانے کے صوابدیدی اختیارات دیئے گئے وہیں نئے انتخابات کے انعقاد کیلئے عبوری نگران حکومتیں تشکیل دینے کی رسم بد کا بھی آغاز کردیا گیا۔
اگر مقصد فی الواقع منصفانہ و شفاف انتخابات کرانے کا ہو تو اس کیلئے الیکشن کمیشن کو مکمل بااختیار بنا کر بھی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے تاہم نیت میں فتور ہو تو شفاف انتخابات کے نام پر تشکیل دی گئی نگران حکومتوں کے ذریعے بھی من مرضی کے نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں جس کی ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ موجودہ نگران حکومتیں سیاسی محاذآرائی کی جس فضا میں تشکیل پائی ہیں‘ اسکی بنیاد پر شفاف انتخابات کے دعوئوں کے باوجود نگران حکومتوں کی من مرضی کے نتائج لینے کیلئے معاونت حاصل کرنے کا تاثر ہی اجاگر ہو رہا ہے۔ بالخصوص نگران سیٹ اپ میں وزراء اعلیٰ اور وفاقی و صوبائی وزراء کے مناصب پر جن شخصیات کا چنائو ہوا ہے وہ کئی حوالوں سے سابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے مخالفین اور اسکی مدمقابل پی ٹی آئی کی قیادت کے ہمدرد کے طور پر ہی معروف ہیں جس سے شفاف انتخابات کے عمل پر پہلے ہی سوالیہ نشانات لگ چکے ہیں۔
اب عبوری نگران حکومتیں اپنی محدود ذمہ داریوں کے علاوہ حکومتی اور مملکتی پالیسیوں کے حوالے سے بھی ایسے اقدامات اٹھاتی اور اعلانات کرتی نظر آرہی ہیں جو آئین کے تحت منتخب ہو کر اقتدار میں آنیوالی جماعتوں اور انکی قیادتوں کا ہی مینڈیٹ ہوتا ہے۔ اس سے نگران سیٹ اپ کے کردار پر شکوک و شبہات پیدا ہونا بھی فطری امر ہوگا۔ اس حوالے سے نگران سیٹ اپ کی جانب سے وفاقی اور صوبائی سطح پر بیوروکریسی میں وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ سے بھی اسکے محض روزمرہ کے معاملات نمٹانے کے محدود مینڈیٹ کی نفی ہوتی ہے۔ اس وقت جبکہ نگران سیٹ اپ کی میعاد صرف ایک ماہ کی باقی رہ گئی ہے کیونکہ 25 جولائی کے انتخابات کے بعد انہیں بہرصورت اقتدار کا مینڈیٹ حاصل کرنیوالی جماعت کو اقتدار منتقل کرکے گھر واپس جانا ہے اس لئے اس سیٹ اپ کی جانب سے وفاقی اور صوبائی سطح پر پوری سول اورپولیس بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ محض شفاف انتخابات کے مقصد میں لپٹی نظر نہیں آتی کیونکہ اس تقرر و تبادلہ کے مراحل پورے ہوتے ہوتے نگران سیٹ اپ کی میعاد مکمل ہو جائیگی اس لئے وسیع پیمانے پر کی گئی اس اکھاڑ پچھاڑ کے ذریعے انتخابات کی شفافیت کے ڈنکے کیسے بجائے جاسکیں گے جبکہ انتخابات کے انعقاد تک تو تبدیل ہونیوالے سول اور پولیس بیوروکریسی کے ارکان بمشکل اپنے تقرر کے نئے مقام تک ہی پہنچ پائیں گے اس طرح وہ انتخابی عمل میں سرے سے معاون ہی نہیں بن سکیں گے۔ چنانچہ انتخابات کے انعقاد تک بیوروکریسی عملاً عضوِمعطل بنی رہے گی۔ اگر بیوروکریسی کو کسی خاص مقصد کے تحت عضوِمعطل ہی بنانا ہے تو پھر بہتر تھا کہ پوری بیوروکریسی کو 25 جولائی تک رخصت پر گھر بھجوادیا جاتا تاکہ انتخابات میں اسکے عمل دخل کا کہیں شائبہ تک نہ ملتا۔اس تناظر میں یہ تصور بھی بے معنی نظر آتا ہے کہ بیوروکریسی کے ارکان ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جانے کے بعد اپنی مخصوص ذہنیت کے مطابق انتخابی عمل میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کر سکیں گے۔ اگر ان کا ذہن کسی ایک پارٹی کو انتخابات میں فائدہ پہنچانے کا بنا ہوگا تو وہ اپنے ذہن کے مطابق کسی بھی صوبے میں بیٹھ کر وہاں متعلقہ پارٹی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اس طرح بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ سے تو انتخابات کی شفافیت والا مقصد تو کسی صورت پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس تناظر میں نگران حکومتوں کے اس اقدام کو بیوروکریسی میں افراتفری پیدا کرنے اور مجموعی طور پر اس پر بداعتمادی کا اظہار کرنے سے ہی تعبیر کیا جائیگا جو بادی النظر میں انتخابات میں اپنی من مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے مترادف ہے۔
اس صورتحال میں بہتر یہی ہے کہ نگران حکومتیں شفاف انتخابات کیلئے صرف الیکشن کمیشن کی معاونت کریں جس نے پہلے ہی آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے مکمل انتظامات کر رکھے ہیں اور پاک فوج کے ساڑھے تین لاکھ ارکان کی خدمات بھی حاصل کی ہوئی ہیں جن کی موجودگی میں کسی کو پولنگ سٹیشنوں کے اندر پر مارنے کی بھی جرأت نہیں ہوگی۔ اگر نگران حکومتوں کی جانب سے حکومتی اور مملکتی پالیسی معاملات میں مداخلت اور اپنی مرضی کی پالیسیاں وضع کرنے کا تاثر پختہ ہوگا تو انکے ماتحت ہونیوالے انتخابات کے غیرجانبدارانہ اور شفاف ہونے پر کیسے یقین کیا جاسکے گا۔