جمعۃ المبارک‘ 7؍ شوال 1439 ھ ‘ 22؍ جون 2018ء
مزاحیہ ادب کا عہد یوسفی اختتام کو پہنچا۔
مشتاق احمد یوسفی اردو ادب کا ایک ایسا نام ہے جو کئی عشروں سے نامور رہا، دوسروں کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے نادانوں کے سامنے دانائوں کی باتیں کرنے کا فن ان کے ساتھ ہی ختم ہوا۔ مرحوم یوسفی نے طویل اور بھرپور زندگی پائی۔ آخری ایام میں صاحب فراش بھی رہے۔ چاہنے والے اور مداح انہیں ہر دور میں بے شمار میسر رہے۔ ان کی کتابیں اردو ادب کے شائقین ہاتھوں ہاتھ لیتے اور پھر مدتوں انکے اقتباسات گردش میں رہتے اور لوگوں کو ازبر ہو جاتے۔ یہ مقبولیت کم ادیبوں کے حصہ میں آئی۔ وہ ایم اے نفسیات تھے اور پھر بنک کی ملازمت نے انہیں لوگوں کو پڑھنے اور ان کے خیالات کو جانچنے کا عمدہ موقع دیا اس لئے وہ خشک وعظ کی بجائے ہنستے ہنساتے ہوئے کام کی باتیں کرتے رہے۔ ان کی پانچ کتابیں شائع ہوئیں، انہیں حکومت پاکستان نے ادبی خدمات پر ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ انہیں آدم جی ایوارڈ، قائداعظم میڈل، پاکستان اکیڈمی کی طرف سے بیسٹ رائٹرز کا اعزاز بھی ملا۔ مرحوم اپنی برجستہ اور شگفتہ تحریروں کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ مزاح نگاری میں ان کا نام ہمیشہ یاد رہے گا۔ بقول ڈاکٹر ظہیر فتح پوری ’’ہم مزاح نگاری کے دور یوسفی میں جی رہے ہیں‘‘۔ آج ان کے انتقال کے ساتھ ہی یہ دور بھی اختتام پذیر ہوا۔ اللہ کریم ان کے لواحقین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
٭…٭…٭
ڈی جی خان کا دورہ جمال لغاری کو مہنگا پڑ گیا
جمال لغاری نے خود ’آبیل مجھے مار‘ والی حرکت کی ہے، اب خمیازہ تو انہیں بھگتنا ہی پڑے گا۔ ڈی جی خان کے پسماندہ علاقے میں بھی اب اتنا شعور آ گیا ہے کہ وہاں کا پڑھا لکھا نوجوان اردو ہی نہیں انگریزی میں بھی اپنا مدعا ٹھیک ٹھیک بیان کر سکتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ لغاری صاحب کے رخ زیبا کا علاقے کے ووٹروں نے ٹھیک 5 سال بعد دیدار کیا ہے۔ انہیں 5 سال بعد یاد آیا کہ وہاں کوئی مرا بھی ہے جس کی تعزیت بھی کرنی ہے۔
کمال کا حافظہ پایا ہے جمال لغاری نے کہ انہیں 5 سال پرانا مرنے والا بھی یاد رہا۔ اس طرح اگر وہ ان 5 برسوں میں اسلام آباد، لاہور یا کراچی کے ٹھنڈے ٹھار بنگلوں میں عیش کرنے کی بجائے اپنے حلقے کے ووٹروں سے رابطے میں رہتے ان کے دکھ درد میں حصہ لیتے تو آج انہیں لوگوں کی باتیں تو نہ سننا پڑتیں۔ پھر یہ گھمنڈ کس بات کا کہ سردار ہوں۔ تم لوگ ہمیں صرف ووٹ کی ایک پرچی دیتے ہو۔ جانتا ہوں جمہوریت کیا ہے۔ یہ الفاظ تو کوئی عقل سے عاری امیدوار بھی اپنے حلقے کے ووٹروں کے سامنے استعمال نہیں کر سکتا۔ اگر اتنا ہی اپنی سرداری پر گھمنڈ ہے تو جمال جی گھر بیٹھیں سرداری کریں۔ یہ الیکشن لڑنے ووٹ مانگنے کا دھندا چھوڑیں ۔اس گلی میں تو عزت اتار کر جانا پڑتا ہے۔
جس کو ہو جاں و دل عزیز
تیری گلی میں جائے کیوں
آپ نے پانچ سال بہت سرداری کے وزارت کے مزے لوٹ لئے اب عوام کی باری ہے۔ یاد رکھیں چونٹیاں بھی مل کر شیر کی کھال اتار سکتی ہیں! یہ سرداری اور وزارت انہی کے ووٹوں کے صدقے میں ملتی ہے۔
نگران وزیر موسمیاتی تبدیلی کا پہلے ہی روز دورہ گلگت بلتستان کا حکم
نگران وزرا کے وہی لچھن ہیں جو منتخب وزرا کے ہوتے ہیں۔ اب محکمہ موسمیات کے نگران وزیر شیخ یوسف نے اپنی وزارت کا چارج سنبھالتے ہی گلگت بلتستان کے دورے کا حکم دیا ہے۔ موصوف وہاں موسم گرما میں گلیشیروں کے پگھلنے والی برف سے بننے والی جھیلوں کے منصوبوں کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ …؎
جوش میں ہیں اس قدر تیماردار
ٹھیک ہوتے شرم آتی ہے مجھے
شکر ہے انہوں نے گھروں کی چھتوں پر بنائے گئے پودینہ کے باغات کا منصوبہ دیکھنے کی فرمائش نہیں کی۔
شاید ہی ایسا منصوبہ کبھی ہمارے ہاں زیرغور آیا ہو یا اس پر کام ہوا ہو۔ ہر سال گرمی میں برف پگھلتی ہے تو بے شمار چھوٹی موٹی جھیلیں ان گلیشیروں کے دامن میں یا قریبی علاقوں میں وجود میں آتی ہیں یا پھر پہلے سے موجود جھیلوں میں ندیوں میں دریائوں میں پانی کی مقدار بڑھنے سے ارد گرد کا علاقہ زیرآب آتا ہے۔ لے دے کر عطا آباد میں زلزلے کے باعث ٹوٹنے والے پہاڑ کے ایک حصہ سے مقامی نالے کا پانی رکنے سے ایک وسیع جھیل بنی ہے جس کا اب خطرہ ہے کہ وہ پانی کے دبائو سے ٹوٹ نہ جائے۔ اگر وزیر موصوف اس کا معائنہ کرنا چاہتے تو بہتر تھا کہیں اصل مسئلہ گلگت بلتستان کے سیر سپاٹے کا تو نہیں اور وہ بھی سرکاری خرچے پر۔ ویسے بھی مال مفت ہو تو دل بے رحم ہو ہی جاتا ہے۔ وزیر موسمیات کو تو اس وقت اندرون سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے دوروں کے انتظامات کا کہنا چاہئے تھا جہاں موسمیاتی تبدیلی کا عذاب پوری شدت کے ساتھ عوام پر مسلط ہے اور متوقع مون سون میں یہی علاقے سیلاب میں ڈوبے نظر آئیں گے۔ یہاں ضرورت ہے سیلاب اور گرمی سے عوام کو بچانے کے منصوبوں کی نگرانی کی نہ کہ گلگت بلتستان کے پرکیف دورے کی۔
٭…٭…٭
پیپلز پارٹی کو پنجاب میں امیدواروں کی قلت کا سامنا
ایک طرف پیپلز پارٹی کے قائد آصف زرداری اور پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ دعوے کر رہے ہیں کہ مرکز کے ساتھ سندھ اور پنجاب میں بھی حکومت ہم بنائیں گے تو دوسری طرف الیکشن سے پیشتر ہی یہ حال ہے کہ گویا پنجاب میں امیدواروں کا کال پڑ گیا ہے اور پیپلز پارٹی کو الیکشن لڑانے کیلئے لوگ ہی نہیں مل رہے۔ سوشل میڈیا پر زبردست لطائف چل رہے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے ق لیگ والے اپنے ٹکٹ لوگوں کے گھروں میں پھینک کر فرار ہوتے تھے اب یہی حال پیپلز پارٹی کا ہے جس کے ٹکٹ نامعلوم افراد لوگوں کے گھروں میں پھینک کر فرار ہو رہے ہیں۔ اب معلوم نہیں ٹکٹ ملنے کے بعد اس گھر والے کی کیا حالت ہو رہی ہو گی جس کے گھر ٹکٹ پھینکا گیا تھا۔ لوگ تو اب پیپلز پارٹی کے ٹکٹ لے کر آنیوالے عہدیداروں کو دیکھ کر راستہ ہی بدل لیتے ہیں کہ کہیں مفت میں یہ ٹکٹ ان کے گلے نہ پڑ جائے۔ لاہور جیسے شہر میں جسے پی پی پی والے لاڑکانہ کے بعد اپنا دوسرا قلعہ کہتے ہیں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لئے مطلوبہ امیدوار دستیاب نہیں تو باقی علاقوں کا کیا کہنا، جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی والے اپنا جال پھینک کر بہت سی پیلپی مچھلیاں پھانس چکے ہیں۔