اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دوسری جمہوری حکومت گو ہچکیوں کے ساتھ ہی سہی لیکن بخیرو عافیت منزل مقصود تک پہنچ چکی ہے۔نئے الیکشن کیلئے میدان سج گیا ہے۔نگران حکومت قائم ہو چکی ہے ۔چھوٹے بڑے تمام سیاسی پہلوان اکھاڑے میں اتر چکے ہیں۔وعدوں کے پہاڑ کھڑے کئے جا رہے ہیں لیکن ان وعدوں کے پیچھے سیاسی پہلوانوں کی چالبازیاں بلکہ منافقت صاف نظر آرہی ہے۔ ہر الیکشن کے موقع پر سیاستدان بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں۔ووٹ لیتے ہیں اور پھر ووٹرز سے ناطہ ہی توڑ لیتے ہیں۔یہ وعدے صرف عوام کو چکمہ دینے کیلئے ہوتے ہیں۔پچھلے دونوں جمہوری ادوار میں بھی سیاستدان دو اہم وعدوں کی بنا پر اقتدار کی مسند تک پہنچے تھے۔ اول لوڈ شیڈنگ ختم کرنا اور دوم پاکستان کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لانا بلکہ ایک پر جوش اہم سیاستدان تو پاکستان کا پیسہ لوٹنے والوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا وعدہ کیا کرتے تھے۔ ایک سال کے اندر اندر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ فرماتے تھے۔ عوام نے ان وعدوں پر اعتماد کیا۔ محترم اقتدار تک پہنچے۔شان و شوکت سے حکمرانی کی۔ لوڈ شیڈنگ آج بھی دس سے بارہ گھنٹے با قاعدگی سے ہو رہی ہے۔رہی بات لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لانے کی ۔ملک مزید لوٹ مار کا شکار ہو کر کنگال ہو گیا۔ عوام قرض، مہنگائی اور بے روزگاری کے سمندر میں ڈوب گئے لیکن ہمارے حکمران اور سیاستدان مزید دولت مند ہو گئے۔ جمہوریت کے ان دو ادوار میں جمہوری لیڈروں کی دو اہم خوبیاں کھل کر عوام کے سامنے آئیں۔اول ہمارے سیاستدانوں کو ملک سے زیادہ ذاتی مفادات عزیز ہیں اس لئے آئے روز اسمبلی ممبران کی تنخواہیں اور مراعات بڑھتی رہتی ہیں۔تھوڑی بہت نہیں بلکہ تین سے چار سو فیصد تک بڑھ جاتی ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ جہاں ذاتی مفادات کی بات آتی ہے تو تمام ممبران متحد ہو جاتے ہیں۔ بسم اللہ کر کے تمام مفادات سمیٹ لیتے ہیں۔ قوم کے غم میں دن رات گھلنے والے ممبران بھی خاموشی سے اپنا حصہ وصول کر لیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہر ممبر اپنے ذاتی کرتوت اپنے عوام سے خفیہ رکھنے کا ہر ممکن حربہ استعمال کرتا ہے تا کہ کل کو کہیں پکڑے نہ جائیں یا انکے کردار پر کوئی حرف نہ آئے۔ اس دفعہ بھی ہمارے ان راہنمائوں نے خفیہ طریقے سے نامزدگی فارم سے وہ تمام شقیں نکال دیں جنکا تعلق انکے ذاتی کردار سے تھا۔بعد میں یہ شقیں بیان حلفی کے ذریعے سپریم کورٹ نے بحال کیں۔اب جب امیدواروںکے ذاتی اثاثے عوام کے سامنے آئے تو پتہ چلا کہ ہمارے سیاستدان تو ما شا ء اللہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں۔کھربوں پتی لیکن ملکی وسائل لوٹنے سے پھر بھی باز نہیں آتے۔سیاستدانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ عوام بھی ما شا ء اللہ اب بہت با شعور ہو چکے ہیں اور وہ چالاک سیاستدانوں سے مرعوب نہیں ہونگے۔عوامی سوچ کی چند مثالیں حاضرِ خدمت ہیں۔
پہلا واقعہ ہے مری کے علاقے میں رہنے والے ایک پیشہ ور سیاستدان کا ۔2013کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔ غالباً وزیر بھی رہے لیکن موروثی سیاستدانوں کی طرح علاقے میں جانے کی کبھی زحمت گوارا ہی نہ کی نہ ہی اپنے علاقے کے لوگوں سے رابطہ رکھا۔اب جب الیکشن کی دوڑ شروع ہوئی تو موصوف اپنے حلقے میں جا پہنچے۔جونہی عوام نے انہیں دیکھا تو ڈنڈے لے کر انکی کار کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے۔ انکے خلاف نعرہ بازی شروع ہو گئی۔ نوجوانوں نے انکی کار کے شیشے توڑ دئیے۔ موصوف اپنی کار سے باہر ہی نہ نکل سکے ۔انکے اپنے عوام نے انہیں وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔اسی طرح ڈیرہ غازیخان کا ایک سردار (سابق وزیر) حال ہی میں پانچ سال بعد اپنے حلقے میں گیاتو نوجوانوں نے اسے سننے سے انکار کر دیا اور اسے وہاں سے رخصت ہونا پڑا۔یہ ہے جھوٹے اور چالباز سیاستدانوں کی طرف عوام کا رد ِ عمل۔ امید ہے ان واقعات سے کافی سیاستدان سیکھ گئے ہوں گے۔ دوسرا واقعہ ہے کراچی ملیر کا جہاں پانی کی بہت کمی ہے۔ عوام پانی کی بوند بوند کیلئے ترستے ہیں۔ پانچ ہزار کا پانی کا ٹینکر بکتا ہے۔ غریب عوام اکثر سوال کرتے ہیں کہ وہ روٹی کھائیں یا ٹینکر خریدیں۔ لوگ اکثر غیر معیاری اور صحت کیلئے نقصان دہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ وہاں خواتین نے اکٹھے ہو کراعلان کیا ہے کہ ’’ہم ووٹ صرف اس سیاستدان کو دینگے جو علاقے میں صاف پینے کا پانی لائے گا‘‘۔لہٰذا وہاں بھی اب سیاستدان سوچ سمجھ کر قدم رکھیں گے۔ بلوچستان ہمارا بہت ہی پسماندہ صوبہ ہے۔ زیادہ تر عوام ان پڑھ ہیں اور خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہاں سرداری سسٹم بھی اتنا مضبوط ہے کہ لوگ چوں چراں نہیں کرتے۔ وہاں لوگ جمہوریت کے فوائد سے بھی بے خبر ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ وہاں بھی جمہوریت نے اپنا رنگ جمانا شروع کر دیا ہے۔
عوام کی آنکھیں کھلنی شروع ہو گئی ہیں۔ وہاں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تمام سردار صاحبان اور علاقے کے آسودہ حال لوگ جو الیکشن لڑنے کے اہل ہیں وہ سب کراچی میں رہتے ہیں۔ اپنے علاقے میں کبھی کبھار آتے ہیں۔یہ لوگ الیکشن لڑتے ہیں منتخب ہوتے ہیں اور پھر کراچی چلے جاتے ہیں۔ غیر موجودگی کی وجہ سے اگر وہ چاہیں بھی تو علاقے میں ترقیاتی کام نہیں کر اسکتے۔ بلوچستان کے غریب اور ان پڑھ عوام کراچی انکے پاس پہنچ نہیں سکتے اس لئے مسائل حل ہی نہیں ہوتے۔ لہٰذا بلوچستان کے عوام کو اس محرومی کا شدت سے احساس ہوا ہے۔ بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ ووٹ ایسے آدمی کو دیا جائے جو علاقے میں موجود رہے۔ اسلام آباد یا کراچی کی طرف نہ بھاگے۔ ان پڑھ اور خانہ بدوش بلوچوں کی یہ سوچ قابل تعریف ہے اور جمہوری سوچ کی مظہر ہے۔ پھر ہمارا فاٹا کا علاقہ ہے جو اب تک جمہوریت کے فیض سے محروم تھا۔ کافی عرصے سے انکی کوشش تھی کہ انہیں خیبر پختونخواہ میں ضم کرکے باقاعدہ طور پر پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔ گو کچھ سیاسی لیڈروں نے لسانیت کی بنا پر صوبے میں ضم ہونے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی بلکہ اب بھی ان کی فتنہ پرور کوششیں جاری ہیں مگر عوام کی خواہش کے احترام میںفاٹا کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کر دیا گیا ہے اور اب وہ پاکستان اور اپنے علاقے کی ترقی کیلئے اہم کردار ادا کرینگے۔مزید یہ کسی معجزے سے کم نہیں کہ وہاں سے اب کچھ خواتین بھی الیکشن لڑ رہی ہیں جبکہ کچھ عرصہ پہلے تک اس علاقے کی خواتین کو ووٹ تک ڈالنے کی اجازت نہیں تھی۔ گلگت بلتستان میں بھی اہم جمہوری تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ یہ علاقہ 1947 سے پہلے ریاست کشمیر کا حصہ تھا۔ اسی بنا پر بھارتی وزیراعظم اسے بھارت کا حصہ قرار دیکر چین پر اقتصادی راہداری کے حوالے سے معترض ہے جسے چین اور پاکستان دونوں نے رد کر دیا ہے۔ اس علاقے کو یہاں کے عوام نے خود ڈوگروں سے آزاد کراکر پاکستان کا حصہ بنایا تھا۔ بین الاقوامی مجبوریوں کی وجہ سے اس علاقے کو باقاعدہ صوبے کا درجہ نہیں دیا جاسکا۔ وہاں بھی عوام نے اپنے جمہوری حقوق کیلئے بہت ہڑتالیں کی ہیں۔ جلوس نکالے ہیں۔ لہٰذا اب اسے بھی باقی صوبوں کی طرح تمام جمہوری حقوق دیدئیے گئے ہیں۔ ان حالات سے واضح امید ہو چلی ہے کہ جمہوریت یہاں جڑیں پکڑ رہی ہے اور عوام اپنا کردار ادا کرنے کیلئے بہت حد تک باشعور ہو چکے ہیں۔یقین ہے کہ عوام اب سیاستدانوں کو شعبدہ بازی ، چالبازی اور دھوکہ دہی کی سیاست ترک کرنے پر مجبور کر دینگے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024