افراط و تفریط روکنے اور معاشرتی زندگی میں اعتدال پیدا کرنے کیلئے دین اسلام میں احتساب پر بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم کی سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوتا ہے ، ’’ اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو (بصورت کتاب ) اسکے گلے میں لٹکا دیا ہے اور قیامت کے روز (وہ ) کتاب اسے نکال دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا (کہا جائے گا کہ ) اپنی کتاب پڑھ لے، تو آج اپنا آپ ہی محتسب کافی ہے‘‘۔ گویا احتساب ایک مسلسل عمل ہے۔ انسان دنیا میں جو کچھ کرتا ہے اس کا پورا پورا حساب رکھا جا رہا ہے جو یوم آخرت اس پر آشکار کردیا جائے گا کہ دیکھتا جا اور شرماتا جا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس احتسابی صفت کا ذکر قرآن حکیم میں متعدد بار آیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے (ان اللہ کان علی کل شی حسیبا) ’’بیشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے‘‘۔
جناب رسالتماب حضرت محمدؐ جو پیغام اور نظام حیات لے کر آئے وہ کسی شخص قوم یا علاقے کیلئے نہیں تھا بلکہ عالمگیر ضابطہ حیات ہے اور فطری طور پر اس میں وہ ساری خوبیاں موجود ہیں جو ہر زمان و مکان میں اللہ کی مخلوق کیلئے خیر کا باعث بن سکیں ۔ اسلام میں عدل و انصاف اور جزاوسزا پر بے حد زور دیا گیا ہے۔ فی الحقیقت اسکے بغیر معاشرہ جرائم اور منکرات سے پاک نہیں ہو سکتا۔ ہر نوع کے مسائل و معاملات سے نمٹنے کیلئے راہنما اصول و ضوابط متعین کردئیے گئے ہیں جو انکے اندر رہے گا فلاح پائے گا اور جو منہ زوری دکھائے ،لائق احتساب ہوگا۔ ایسے جرائم جن کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے، کیلئے سخت سزائیں مقرر کیں ۔ چوری ڈکیتی ، قتل ، زنا ، لوٹ مار اور شراب نوشی کیلئے حد مقرر کی۔ نفاذ قانون میں سختی سے کام لیا ، چھوٹے بڑے ، امیر غریب کی تفریق ختم کر دی۔ سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔ حکام کو بھی ضابطہ اخلاق کا پابند بنایا کہ وہ کوئی ماورائی مخلوق نہیں ، عام انسان ہیں۔ اگر کسی نے اپنی حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو مستوجب سرزنش ٹھہرا۔ نتیجتاً شوریدہ سر قبائل باہم شیرو شکر ہوگئے۔ مرکزیت کا رنگ پیدا ہوا ، اخوت و مساوات پر استواری اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی گئی ، جو آج کے جدید سیاسی نظاموں میں بھی ایک ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔
حضور رسالت مآبؐ کے زمانے میں عمال کا تقرر دربار رسالت سے ہوتا جن کی ذمہ داریاں ہمہ جہت ہوتیں ، انتظامی سربراہ ہونے کے ناطے امن و امان کی بحالی اور برقراری کے ذمہ دار ہوتے زکوۃ کی وصولی اور تقسیم کا اہتمام کرتے ، عدلیہ کی سربراہی کرنے اور تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دینے کے ساتھ ساتھ فوجی کماندار بھی ہوتے تھے ۔ عمال کا تقرر اہلیت کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ حضور سرور عالمؐ کا ارشاد ہے
’’جو کوئی مسلمانوں کا حاکم مقرر ہو اور ان پر کسی کو بلااستحقاق عامل بنادے تو اس پر اللہ کی لعنت، اللہ اس کا کوئی عذر اور فدیہ قبول نہ کریگا۔ یہاں تک کہ اس کو جہنم میںداخل کر دے گا‘‘۔ ذرا اس حدیث مبارکہ کی حکمت ملاحظہ ہو۔ حاکم وقت کا فرض ہے کہ عمال کا تقرر میرٹ پر کرے ‘‘ بلا استحقاق ، سفارشی تقرر کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہوگی اور وہ اس جرم کی پاداش میں واصل جہنم ہوگا۔ ایک اور مقام پر فرمایا: ’’ خدا کی قسم ! کسی ایسے شخص کو ذمہ داری نہیں سونپوں گا، جو مجھ سے اس کا سوال کرے گا اس کیلئے حریص ہوگا ‘‘
پھر فرمایا: ’’حکومت و امارات طلب نہ کرو، بے طلب ملے گی تو خدا تمہاری مدد کریگا ، طلب کرو گے تو تمہارے ذمے ڈال دی جائیگی ‘‘ حکومت دنیا میں امانت ہے اور آخرت میں رسو ائی اور ندامت ، سوائے اسکے جو اس کا حق ادا کرے اور اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے ادا کرے ، بقول اقبال … ؎
سروری دردین ما خدمت گری است
عدل فاروقی و فقر حیدری است
اس احتیاط ء التزام کے بعد حضور سرور عالم ؐ نے نیک عمال کے لئے دعا مانگی ۔ فرمایا: ’’ اے اللہ جس شخص کے اختیار میں میری امت کا کوئی کام ہو اگر وہ اس سے نیک سلوک کرے تو تو بھی اس سے نیک سلوک کر اور اگر وہ اس سے سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کر ‘‘
حضور سرور کونینؐ عمال کے تقرر کے وقت ان کا انٹرویو بھی فرمایا کرتے تھے تاکہ انکی صلاحیتوں کی جانچ ہو سکے ۔ حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا تو دریافت فرمایا پیش آمدہ معاملات کا فیصلہ کیسے کرو گے؟ عرض کی یار رسول اللہ ! اس صورت میں اپنی عقل سے اجتہاد کروں گا ، جس پر آپؐ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
حضرت معاذ یمن کیلئے روانہ ہونے لگے ۔ پابہ رکاب تھے کہ حضور سرور کونینؐ نے بطور خاص نصیحت فرمائی۔ ’’لوگوں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آنا، ان کیلئے آسانی پیدا کرنا ، دشواری پیدا نہ کرنا ، لوگوں کو بشارت دینا ، انہیں وحشت زدہ نہ کرنا ، باہم اتفاق رکھنا اور نفاق سے بچنا۔ حضورسرور عالمؐ کے عہد میں عمال کے باقاعدہ مشاہرے مقرر نہیں تھے ہر کسی کو ضرورت کے مطابق تنخواہ ملتی تھی اصول یہ تھا کہ اہل خانہ کیلئے نان و نفقہ ضروری امور نمٹانے میں مدد کے لئے خادم اور رہنے کیلئے گھر سرکاری خرچہ پر حاصل کیا جاتا ہے ، اس سے زیادہ ہر گز نہیں جو زیادہ لے گا خیانت کر یگا اور مستوجب سزا ہوگا۔ یہی نہیں آپؐ نے رشوت ، خیانت اور بددیانتی کے چور درواازوں کی بھی نشاندہی کردی اور ہیرا پھیری کی کوشش کرنے والے عمال کو سخت تنبیہ فرمائی۔ (باقی آئندہ)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024