میاں نواز شریف کے بیانات نے پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچا دی۔ حالانکہ ڈان میں شائع ہونے والا معاملہ ایک ’’بیان‘‘ نہیں تھا۔ ایک سوال تھا۔ مگر ہنگامہ برپا ہو گیا …؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیں
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
ہماری مخلصانہ رائے میں نواز شریف سیاسی لیڈر ہیں۔ اُنہیں اپنے نظریاتی حوالوں سے متعلقہ اصحاب کو convince کرنا چاہئے۔ بین السطور Between the lines میاں صاحب کے معاملات پر غور و فکر بھی ایک بہترین حکمت عملی ہے۔ ایک اور سیاسی لیڈر مصائب کی گھٹاؤں میں آیا تو تاریخ کے بادل ضرور گرجیں برسیں گے۔ البتہ پاکستانی فوج ایک محترم ادارہ ہے۔ فوج ہماری زندگی ہے۔ اس حوالے سے بھی نظریات کو درست کرنا ضروری ہے۔ فوج ہمارا defence اور Protection ہے۔جناب نوازشریف گہرے سیاستدان ہیں۔ روز عدالتی کارروائی نے اُنہیں Darling of Media بنا دیا۔ میڈیا کو خبر چاہئے، نواز شریف اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ اُن متنازعہ بیانات کے بعد اب PTI کی باری تھی۔ نواز شریف نے بجا طور پر اپنی برہمی کا اظہار کیا، اُنہوں نے PTI کو ’’پگڑی اُچھال پارٹی‘‘ قرار دیا۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اخلاقیات کی گراوٹ کا جو معیار تحریک انصاف نے قائم کیا وہ قابل گرفت ہے۔ عمران خان اور شیخ رشید نے یک زبان ہو کر تقریروں میں اخلاق اور تہذیب سے گرے ہوئے الفاظ اور جملے بکھیرنے شروع کر دیئے۔ سیاستدانوں کے درمیان ’’باہمی احترام‘‘ ختم ہوتا چلا گیا۔ حیرت کی بات ہے کہ ملک کے پڑھے لکھے افراد کا ایک محدود طبقہ عمران خان کو نجات دہندہ سمجھتا ہے۔
جب وزیراعظم نوازشریف تھے تو عمران انہی تقریروں میں ’’اوئے نوازشریف‘‘ کہہ کر مخاطب کرنے کے عادی تھے۔ کیا یہ بھی کوئی انداز اور لہجہ ہے۔ شیخ رشید حیرت انگیز حد تک خلاف تہذیب الفاظ منتخب کرتے ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ سیاست کی اور اُنکے اطاعت گزاروں میں شمار تھا۔ نوازشریف کو پرویز مشرف نے بے اقتدار کر دیا تو لال حویلی کا فرزند انقلاب مشرف کے ٹولے میں شامل ہو گیا۔ یہ ہے اُصولوں کی سیاست؟ بد قسمتی سے چینلوں کے پاس Material ہے نہیں تو شیخ رشید جیسے شخص کی گالیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ حالانکہ شیخ صاحب زیادہ پڑھے لکھے تو ہیں نہیں۔ لال حویلی کے پُر اسرار کردار ہیں جس کوچے میں وہ رہتے ہیں۔ وہاں آس پاس ’’فیضان سیاست‘‘ کی بہار ہے۔
تیرے کوچے اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اُس سے بات کرنا
شیخ رشید احمد نے ’’چوہدری شجاعت پارٹی‘‘ سے بھی ناطہ توڑ دیا۔ پرویز مشرف کے بارے میں موقع پرست سیاستدانوں کی رائے اب بالکل تبدیلی ہو گئی ہے۔ میاں نواز شریف نے عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں کا بھی ذکر کیا۔ عمران خان ایمپائر کی اُنگلی کا انتظار کرتے ہوئے جس کا نہ بلند ہونا تھا نہ ہوئی۔ عمران خان شرمسار بھی نہیں ہوئے۔ اس حوالے سے بھی میاں صاحب پردہ نشینوں کا ذکر کرنے کو بیتاب ہیں۔ اور وہ کر کے رہیں گے۔ جیل اور مصائب سیاستدانوں کے مقدر کا حصہ ہیں۔ نواز شریف ایسی صورتحال کے مقابلے کیلئے بھی تیار نظر آتے ہیں۔ صورتحال کے اس پہلو پر گہری اور عقاب کی نظر رکھنا ضروری ہے آخر نوازشریف، تین بار ملک کے وزیراعظم رہے ہیں، پنجاب اُنکی سیاست کا مرکز ہے۔PTI جُنوں کی حد تک اقتدار کی سیاست کر رہی ہے۔ جہانگیر ترین لٹک کر رہ گئے ہیں PTI میں اب اُنکی کوئی آواز نہیں ہے۔ جاوید ہاشمی برہم ہو کر باہر آئے۔ شاہ محمود قریشی ہیں مگر بقول ذوالفقار علی بھٹو ملتان کے سیاستدان لیڈر کو Misguide کرتے ہیں۔ پھر شاہ محمود قریشی کا کچھ بھی Stake پر نہیں ہے ساری سیاست عمران خان کی ہے جو داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اللہ سلامت رکھے مگر بظاہر یہ عمران خان کی آخری اننگ ہے۔میاں نوازشریف اس لئے بھی گرجے ہیں کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی اصل حریف PTI ہے۔ نواز شریف کو خدشہ ہے کہ الیکشن کے دنوں میں PTI کو غیبی امداد مل سکتی ہے۔ سیاست مصلحت اور حکمت کا نام ہے۔ میاں صاحب کے پاس ایک واضح راستہ یہ بھی ہے کہ وہ اُن سے تعلق بہتر کر لیں جن سے اُنکی اب زیادہ Mis understanding ہو گئی ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور MQM میں واضح فرق ہے۔ پنجاب میں نواز شریف کی بنیادیں مضبوط ہیں یہ عمران خان بھی جانتے ہیں ایک بار یہ بنیادیں اُکھڑ گئیں تو میاں صاحب کی سیاست Disturb ہو جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت جناب نواز شریف اور مریم نواز کو کیا مشورہ دیا جائے۔ حمایت علی شاعر نے کہا تھا…؎
تو بھی محدود نہ ہو مجھ کو بھی محدود نہ کر
اپنے نقشِ کفِ پا کو میری منزل نہ بنا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024