زندگی سانسوں کی مالا ہے اور یوگا سانسوں کے اتار چڑھاؤ کو نظم وضبط میں لانے کا نام ہے۔سانسوں کے ذریعے دماغ کو خاص ترتیب سے منظم کیا جاتا ہے۔یوگا کا چوتھاعالمی دن پاکستان سمیت ساری دنیا میں منایا گیا یوگا اور موسیقی کا چولی دامن ساتھ رہا ہے۔پاکستان میں درجن بھر یوگی اپنے اپنے انداز میں یوگا کو آگے بڑھا رہے ہیں جن میں یوگی شمشاد حیدر’ یوگی وجاہت اور خاتون یوگی’ گورو ماں شہناز من اللہ سب سے نمایاں رہے ہیں۔یہ کالم نگار مدتوں پہلے’ یوگا میں نروان تلاش کرتے کرتے ’ فرصت کے دنوں میں بنگلورو کے آرٹ آف لیونگ(AoL) کے ہیڈکوارٹرز جاپہنچا تھا جس کے 7 سٹار آشرم میں دو ھفتے قیام اور بعد از غروب آفتاب ‘‘ست سنگ‘‘ محفل موسیقی اور ‘دما دم مست قلندر سخی شہباز قلندر’ کی ہیجان خیز لَے پر دھمال اور رقصِ وحشت کی یاد آج بھی تن مردہ میں آتشیں لہریں جوار بھاٹا اٹھا دیتی ہیں۔روح اور جسم کو باہم یکجا کرنے، ان میں ربط ومیلان پیدا کرنے کی جستجو صدیوں پرانی ہے۔ یوگا بھی اسی مقصد کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ ملتان سے ہزاروں سال پہلے جنم لینے والی اس قدیم روایت کو اب عالمی سطح پر بین الاقوامی یوگا ڈے کی صورت اپنایا جارہا ہے۔ یوگا کی پزیرائی بڑھ رہی ہے۔ دنیا میں جنگ وجدل، بے چینی، افراتفری، طوائف الملوکی اور جابجا بارود کی پھیلتی بو میں فرد کی قدرت سے تعلق استوار کرنے کی طرف عالمی کوشش ہے۔ اپنی اپنی سوچ غالب کرنے کیلئے دنیا میں باہم دست وگریباں افراد، جتھوں اور اقوام کے بیچ وبیچ ذہن اور جسم کی لڑائی میں امن کی جستجو تلاش کی جارہی ہے۔
عالمی سطح پر اکیس جون کو یوگا کا دن منایا جاتا ہے۔ 2015ء سے یہ دن منانے کا آغاز ہوا۔ دنیا کے 175ممالک نے اس کی تائید کی۔ یوگا درندہ صفت مودی کے نرغے میں گھری ہوئی ہے پھنسی ہوئی ہے
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طورپر یہ دن منانے کا فیصلہ ہندتوا کیلئے مسلمانوں کا لہو’ خون بہانے کیلئے مشہور شخص موذی مودی کی تجویز پر کیاتھا۔اس دن کو منانے کی تجویز 27 ستمبر2014کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پیش کی گئی جس میں بتایاگیاتھا کہ ’یوگا دنیا کیلئے سندھو قدیم روایات کا خاص تحفہ ہے۔ یہ جسم اور ذہن کو یکجا کرتا ہے۔ خیال اور عمل کو باہم یک جا کرکے، تحمل اور سکون دیتا ہے، انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی لاتا ہے۔ صحت اور بہتری کی طرف جانے کا تاریخی انداز فکر ہے۔ یہ محض ورزش نہیں بلکہ قدرت اور دنیا کی تلاش کے احساس سے سرشار کرتا ہے۔
دنیا کے 170سے زائد ممالک میں یوگا رواج پاچکا ہے۔ پانچ ہزار سال سے ذہن اور جسم پر اسکے مثبت اثرات کو تسلیم کیاجاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں بڑی تعداد امراض قلب، سرطان، شوگراور سانس سے متعلق موذی بیماریوں کی بھینٹ چڑھ کر ہلاک ہوتی ہے۔ جس کا کم خرچ بالا نشیں حل یوگا ہے جسکے ذریعے صحت مند زندگی گزارنے کے طریقے سکھائے جائیں۔ اس میں بچوں سے لیکر عمر کے ہر حصے سے تعلق رکھنے والے افراد کو صحت مند زندگی گزارنے اور خود کو صحت مند رکھنے کیلئے درجہ بہ درجہ ورزش کرائی جاتی ہے۔ اس طریقہ کار کا مقصد ذہن اور سوچ کی پاکیزگی، سکون، دوسروں کو برداشت کرنا، اپنے اندر جھانکنا اور خود کو اشرف المخلوقات کے اعلی ترین درجہ کی طرف لیجانا ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ انسان کے ذہن اور جسم کو پاک کرنے اور اس میں ٹھہراؤ لانے کا عمل ہے۔
یوگا کا فلسفہ دوسری صدی قبل مسیح میں Sage Patanjali کے نام سے موسوم ہے۔لفظ یوگا کا مطلب ’اتحاد‘ (Unity) ہے۔ یعنی یہ روح ، ذہن اور جسم میں اتحاد لاتا ہے۔ ان میں ٹکراؤ ختم کرنے جسم کے اندر ایک سکون کی کیفیت جنم دیتا ہے۔بھارتی نائب صدر ایم وینکی ہا نائیڈو نے اپنے مضمون میں اس خیال کو غلط قرار دیا ہے کہ یوگا کا مذہب سے کوئی تعلق ہے۔ انکے مطابق یوگا کو مذہب سے جوڑنے کا مطلب اسکی افادیت کو کم کرنا ہے۔ یہ صحت مند طرز زندگی کا ایک انداز ہے جسے نوجوانوں سمیت ہر عمر کے افراد میں رواج دے کر صحت مند زندگی کی طرف لانا چاہئے۔ یہ تجویز بھی دی جارہی ہے کہ یوگا کو سکول کے نصاب میں شامل کردیاجائے تاکہ نوجوانوں میں صحت مند سوچ فروغ پائے اور اپنے جان لینے کے عالمی سطح پر رجحان میں کمی آئے اور نوجوانوں کے رویوں میں تحمل لانا ممکن ہوسکے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اب یوگا کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں بھی ان کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہورہا ہے۔ ورنہ ماضی میں غلام مصطفی کھر ہی یوگا کرتے دکھائی دیتے تھے اور اکثر یوگا کرنے والوں کو شک کی نظر سے دیکھاجاتا تھا۔ بعض دل جلے تو غلام مصطفی کھر کے سمارٹ ہونے اور ان کی شادیوں کا راز بھی یوگا میں تلاش کرتے رہے ہیں۔
مختلف ممالک میں یوگا کے بارے میں مختلف روئیے دیکھے گئے ہیں۔ مثال کے طورپر امریکہ میں 2012 میں نیویارک کے سرکاری حکام نے قراردیا کہ یوگا ’حقیقی ورزش‘ نہیں اس لیے اسے مقامی سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دیا جاتا ہے۔ ایران میں شرعی قوانین سے بچنے کیلئے اساتذہ ہمیشہ اسے ’یوگا کا کھیل‘ کہتے ہیں۔ ملیشیا میں روحانی یوگا پر پابندی ہے جہاں 2008 میں ایک فتوے کے تحت پانچ ریاستوں میں یوگا کو ممنوع قرار دیا گیا۔ دارالحکومت کوالالمپور میں یوگا کی کلاسوں میں ’جاپ کرنا‘ اور ’محوِ عبادت‘ رہنا بھی ممنوع ہے۔
وفاقی دارلحکومت کے مضافاتی علاقے میں ’آرٹ آف لوّنگ فاؤنڈیشن‘ نامی یوگا سینٹر قائم تھا جسے رات کے اندھیرے میں نامعلوم افراد آگ لگا کرچلتے بنے تھے۔ یہ واقعہ بنی گالا میں پیش آیا تھا جو اب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی وجہ سے مشہور ہوچکا ہے۔
یہ سینٹر شریک چیئرمین شہناز من اللہ کے مکان ہی میں قائم تھا۔ اس کا افتتاح شری روی شنکر نے 2012ء میں کیا تھا۔افتتاح کے موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد پاکستان کیلئے امن کا پیغام لانا اور اسلام آباد اور کراچی میں اپنے آشرم کا افتتاح کرنا ہے۔ اْن کا یہ بھی کہناتھا کہ ’میں کھلے دل کے ساتھ طالبان اور دوسرے شدت پسند گروہوں کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے تیار ہوں۔میں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا اور طالبان تک امن کا پیغام پہنچاؤں گا۔ میں نے آج تک جہاں بھی اس قسم کی پہل کی ہے اس میں کامیابی ملی ہے‘۔
المناک حقیقت یہ ہے بھارتی مسلمانوں کیلئے خوں آشام بھیڑیا ثابت ہونے والا موذی مودی یوگا کو بھارت کا مکروہ چہرہ چھپانے کیلئے استعمال کر رہا ہے وہی مودی جو ہمارے کشمیری النژاد نواز شریف کا اتنا گہرا دوست ہے کہ ان کی نواسی کی شادی پر لاہور والے جاتی امرا آگیا تھا اور کشمیری مسلمانوں کے درندہ صفت قاتل کی پذیرائی کا وہ عالم تھا کہ مظلوم کشمیریوں کی روحیں تڑپ اٹھی تھیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024