ماہ صیام‘کراچی میں مہنگائی کا طوفان امڈ آیا
خورشید انجم
دنیا بھر کے مسلم ممالک میں مذہبی تہواروں کے موقع پر عوام الناس کو ریلیف دینے کیلئے اشیائے صرف کی قیمتوں میں 25 سے 30فیصد کمی کی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان واحد ملک ہے جہاں رمضان المبارک میں عوام کو ریلیف دینے کی بجائے مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ صوبائی دارالحکومتوں سے لے کرقصبوں اوردیہات تک میں من مانے نرخوں پر اشیائے ضروریہ فروخت کی جاتی ہیں۔ آڑھتی ‘تاجر اوردکاندار ہر سال ماہ صیام میں ناجائز منافع خوری کے ذریعے عام دنوںسے زائد کما لیتے ہیں اور انتظامی افسران بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں آڑھتیوں اورتاجروں سے پیچھے نہیں رہتے۔ وفاق ہویا پھر صوبائی حکومتیں ان کا کرداررمضان المبارک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے محض دعوﺅں واعلانات تک ہی محدود ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے ایشیائی ممالک کے شہروں میں سب سے سستا ترین شہر شمار ہونے والا کراچی رمضان المبارک میں ملک کا مہنگا ترین شہر بن جاتا ہے۔ بدانتظامی اورچوربازاری کراچی کا مقدر بنادیاگیا ہے‘ رمضان المبارک سے قبل ہی ملک بھر سے سینکڑوں پھل وسبزی فروش کراچی کا رخ کرتے ہیں کیونکہ اس شہر بے اماں میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا فارمولا رائج ہے۔ چند دکانوں ‘ٹھیلوں اورپتھاروں پرنام نہاد چھاپوں کے دوران اکا دکا پھل وسبزی فروشوں اور دکانداروں پرجرمانے عائد کرنے کی کوریج چینلز کے ذریعے حاصل کرکے ارباب اختیار اپنے فرض کی ادائیگی کا چرچا کر لیتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ناجائزمنافع خور اور ذخیرہ اندوزمافیا سرگرم رہتا ہے،رمضان کا چاندنذرآتے ہی عوام کو دن میں تارے دکھادیئے جاتے ہیں ۔
کراچی کی شہری انتظامیہ کی جانب سے حسب روایت رمضان میں مصنوعی مہنگائی روکنے کے بلند بانگ دعوے کیے جارہے ہیں تاہم صارفین کا کہنا ہے کہ بازاروں میں سرکاری نرخ کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔رمضان کی آمد سے صارفین کے گلے پر گراں فروشی کی چھری پھیرنے میں بڑے ڈپارٹمنٹل اور سپر اسٹورز کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور بڑے اسٹورز پر عام دکانوں اور بازاروں کے مقابلے میں 30 سے 40 فیصد زائد قیمتوں پر اشیا فروخت کی جارہی ہیں۔
رمضان میں بیسن کی مانگ میں اضافے کے پیش نظر اس کی قیمت 90 سے 93 روپے فی کلو سے بڑھ کر120 روپے فی کلو تک جاپہنچی ہے۔دیگر اشیاء کی قیمتوں کے علاوہ پھل، سبزیوں، چینی، دالوں اور چاول کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔کمشنر کراچی کی جانب سے جاری کی جانے والی اشیائے خوراک کی قیمتوں کی فہرست میں بیسن کی خوردہ قیمت 58 روپے فی کلو درج ہے۔واضح رہے کہ ایک مہینہ قبل چنے کی دال 85 روپے فی کلو کے حساب سے دستیاب تھی، مئی کے مہینے میں اس کی قیمت 90 روپے فی کلو ہوگئی اور بعد میں بھی اضافے کا یہ رجحان برقرار رہا۔اب مختلف علاقوں میں چنے کی دال کے نرخ 100 روپے سے 110 روپے فی کلو کے درمیان ہیں، لیکن کمشنر کراچی خوردہ فروشوں کو 58 روپے فی کلو فروخت کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔چینی کی قیمت اس وقت 62 روپے سے 64 روپے فی کلو کے درمیان ہے، جبکہ گزشتہ ماہ اس کی قیمت 60 روپے فی کلو تھی۔چینی کے موجودہ سرکاری نرخ 61 روپے فی کلو ہیں۔سفید اور سیاہ کابلی چنے کی قیمت بالترتیب 100 روپے سے 120 روپے فی کلو ہے۔ جبکہ سفید چنے کے کنٹرول نرخ 75 روپے اور کالے چنے کے 55 روپے فی کلو مقررہیں۔گزشتہ مہینے یہ اشیاء 100 روپے فی کلو سے کم خوردہ قیمت میں دستیاب تھیں۔رمضان میں وسیع پیمانے پر استعمال کیے جانے والے شربت اور جوسز بلیک میں فروخت ہورہے ہیں، اور صارفین مختلف برانڈز پر 10 روپے اضافی ادا کررہے ہیں۔خوردہ فروشوں کا کہنا ہے کہ کمپنیوں نے ان کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا ہے، بلکہ طلب کی زیادتی اور سپلائی کم ہونے کی وجہ سے ہول سیلرز روح افزاءکی 800 ملی لیٹر کی 12 بوتلوں کے 1760 روپے وصول کررہے ہیں، جبکہ تین دن پہلے اس کی قیمت 1680 روپے تھی۔جبکہ جام شیریں کا رٹن 1760 روپے میں دستیاب ہے، چند دن پہلے اس کی قیمت 1700 روپے تھی۔نتیجے میں روح افزاء اور جامِ شیریں کی 800 ملی لیٹر کی بوتل 160 روپے میں فروخت ہورہی ہے، چند دن پہلے اس کی قیمت 150 روپے تھی۔1.5 لیٹر کی بوتلوں کی قیمتیں بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔مونگ کی دال کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور یہ 180 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کی جارہی ہے۔ اس کے سرکاری نرخ 132 روپے فی کلو ہیں۔مسور کی دال کے سرکاری نرخ 109 روپے فی کلو ہیں، لیکن دکاندار فی کلو 140 سے 150 روپے میں فروخت کررہے ہیں۔ ماش کی دال 180 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہورہی ہے، جبکہ اس کے سرکاری نرخ 132 روپے فی کلو ہیں۔تاجروں نے بعض دالوں کی طلب و رسد کے فرق کو دور کرنے کے لیے دالوں کی درآمدات میں اضافہ کردیا ہے۔چاول کی فاضل پیداوار اور سٹاک کے باوجود مختلف اقسام کے چاول کے سرکاری نرخوں اور جاری فروخت کے مابین 20 سے 40 روپے تک کا فرق ہے۔اشیائے خوراک کی قیمتوں کی سرکاری فہرست کراچی ہول سیلرز ،پرچون فروش، بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسزاور کنزیومر ایسوسی ایشنوں کی مشاورت سے جاری کی جاتی ہیں، لیکن سرکاری اور مارکیٹ کے نرخوں میں زمین وآسمان کا فرق دور نہیں ہو سکا۔دکانداروں کا نکتہ نظر ہے کہ اگر کراچی کی انتظامیہ ان اشیاء کو سرکاری طور پر مقررہ نرخوں پر فراہمی کو یقینی بنائے تو انہیں صارفین سے سرکاری قیمتیں طلب کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ دوسری جانب لوگوں کا کہنا ہے کہ ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ روکنے کے لیے اسے بھی نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنادیا جائے اور اس میں ملوث عناصر کے خلاف دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلاکر سخت سزائیں دی جائیں۔