مجھے برادرم رانا ثنااللہ اور عزیزم خرم دستگیر کے لئے اس موقع پر بھارت کے ساتھ پاکستان کی تجارت کے حوالے سے بیان پڑھ کر بہت دکھ ہوا۔ اللہ خرم دستگیر کو خوش و خرم رکھے۔ وہ بھارت آتے جاتے رہتے ہیں۔ وہ خوش و خرم رہتے ہیں۔ انہیں میرے جیسے کی دعا کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہاملکی صورتحال خراب ہے۔ پاکستان اور بھارت میں تجارت کی صورتحال متاثر ہو سکتی ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں ہے۔ بنگلہ دیش میں بھارتی وزیراعظم مودی کے بیانات اور بھارتی وزیر اطلاعات کی دھمکیاں شاید عزیزم خرم دستگیر نے نہیں سنی ہوں گی۔ سن کر بھی ان کا موڈ خراب نہ ہوتا۔ انہیں اندیشہ لاحق ہو گیا ہے کہ کوئی چودھری نثار ڈٹ کر بولے گا اور صورتحال ’’بھارتی آقائوں‘‘ کے لئے ناپسندیدہ ہو جائے گی اور ’’تجارت‘‘ کو نقصان ہو گا۔
اتفاق سے خرم دستگیر غلام دستگیر خان کے بیٹے ہیں۔ دستگیر صاحب نے بھی سیاست میں بڑے بڑے معرکے کئے ہیں اور امیر کبیر ہو گئے۔ اس سے پہلے وہ بھی وزیر تھے مگر نظریہ پاکستان ٹرسٹ آیا کرتے تھے۔ برادرم شاہد رشید فاروق الطاف اور ہم سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ بھارت کے لئے وہ ناراضگی والا رویہ رکھتے تھے۔ مجید نظامی کے سامنے کوئی بھارت سے محبت کا اظہار نہ کر سکتا تھا۔ وکلا کی تحریک میں دستگیر صاحب وہیل چیئر پر موجود ہوتے تھے۔
آج کل نواز شریف بھی بھارت کے معاملے میں محتاط ہیں۔ خرم صاحب کے پہلے بھی کچھ بیانات پر میں نے تبصرہ کیا تھا۔ اس میں بھی دردمندی کا تاثر غالب تھا۔ مگر غلام دستگیر ناراض ہو گئے تھے۔ برادرم رانا ثنااللہ نے بہت تکلیف دہ بات کی ہے۔ ’’پاک بھارت‘‘ ڈائیلاگ سے خطے میں غربت ختم ہو گی۔ رانا ثناکو معلوم ہے کہ پاکستان میں کیوں غربت ہے؟ اور بھارت میں زیادہ غربت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ پاک کا لفظ نہ لگایا کریں جبکہ پاکستان اور بھارت میں ڈائیلاگ بھی مناسب نہیں ہیں۔ کچھ لوگ بھارت کے لئے ہندوستان کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے کیونکہ ہندوستان تقسیم سے پہلے کا نام ہے۔ بعد میں بھارت ہو گیا۔ بھارت میں تو انتہا پسند ہندو سیاستدان مہا بھارت کہتے ہیں۔ بھارت میں اس کے اپنے شہری مسلمانوں کے ساتھ جو حکومت نے کیا یہ ملک کبھی ہندوستان نہیں ہو سکتا۔ آپ غور کریں کہ حکیم الامت شاعر مشرق مفکر پاکستان دانائے راز عاشق رسولؐ علامہ محمد اقبال نے کہا:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستان ہمارا
سکھوں، مسیحیوں، مسلمانوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور اس ’’نیکی‘‘ کے صلے میں ظالم قاتل نریندر مودی کو وزیراعظم بنا لیا جاتا ہے۔ اس کے خلاف امریکہ میں مقدمہ درج ہے اور بھارت کے دس بارہ درندہ صفت مجرموں کی تصویریں شائع ہوئی ہیں۔ سب سے نمایاں تصویر نریندر مودی کی ہے۔ رانا صاحب اور خرم صاحب کو مبارک ہو ۔ بھارتی جمہوریت سے زیادہ جعلی کوئی جمہوریت ہو سکتی ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ یہ شعر انتہا پسند متعصب ہندوئوں کے ہندوستان کے ملک کے بارے میں ہو سکتا ہے؟
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
لیکن ایک افسوس یہ کہ جب بنگلہ دیش میں اقبال کی اس نظم کے لئے ایک تقریب ہوئی جس میں بھارتی بھی شریک ہوئے وہاں علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال نے ایوارڈ وصول کیا۔ بہت سی باتوں کی وجہ سے ولید اقبال مجھے پسند ہے۔ وہ اچھا بولتا ہے اور اس محفل میں موجود ہوتا ہے جس میں اس کی والدہ علامہ اقبال کی بہو جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال موجود ہوتی ہیں۔ اس نوجوان میں یہ جذبہ ہے کہ وہ علامہ اقبال کی نسبت کو زندہ کر سکتا ہے جو اس کے والد اور علامہ اقبال کے دانشور بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال نہیں کر سکے۔ میں نے کہا تھا کہ نسبت نسب سے بڑی ہوتی ہے۔ محترمہ ناصرہ علامہ اقبال کی بہو کے ناطے سے مشہور ہیں اور اب وہ ولید اقبال کی ماں کے طور پر مشہور ہو سکتی ہیں۔ ولید اقبال سوچیں اور بنگلہ دیشی ایوارڈ واپس کریں۔ اب زیادہ ضروری ہے کہ وہاں مودی نے ایوارڈ لے کے پاکستان کے خلاف بہت بکواس کی ہے۔ تحریک انصاف کے نمایاں آدمی ولید اقبال سے عرض ہے کہ عمران کو یہ ایوارڈ دیا جاتا تو وہ انکار کر دیتا۔ واجپائی ایوارڈ مودی نے لیا، واجپائی یہاں ہوتا تو ایسا بیان نہ دیتا۔
خرم دستگیر سے میری ملاقات نہیں ہے رانا ثناء اللہ سے ہے۔ وہ نواز شریف کی جلاوطنی کے دور میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر تھے۔ قاسم ضیا پیپلز پارٹی والے اپوزیشن لیڈر تھے دونوں زبردست تھے۔ ہم ان کے ساتھ تھے۔ رانا صاحب کو یاد نہیں ہو گا قاسم ضیا کو یاد ہے۔ وہ اپنے دور حکومت میں ہاکی کے چیئرمین ہو گئے وزیر نہ بنے اور رانا صاحب وزیر شذیر بن گئے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں جب سے وہ ماڈل ٹاؤن میں 14 قتلوں کے بعد 14 مہینوں کے بعد بری ہوئے ہیں تو اسلام آباد کے پڑوس میں ولی کامل امام بری کے مزار پر لاہوریوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ داتا صاحب کی منت پوری ہو گئی ہے کہ وہ دوبارہ وہی وزیر بن گئے ہیں۔ جب وہ وزیر نہ تھے تو زیادہ وزیر لگتے تھے کچھ لوگ ان سے مل کر مبارکباد دینا چاہتے تھے مگر ملاقات نہیں ہو سکتی تھی۔ کہ وزیر سے ملاقات ہو جائے تو پھر وزارت کیا ہوئی۔ رانا مشہود بھی جب ڈپٹی سپیکر تھے تو ملاقات ہو جاتی تھی اب وہ بھی وزیر ہو گئے ہیں۔ رانا ارشد بھی وزیر ہونے کے لیے منت سماجت کر رہے ہیں۔ تاکہ ان کی ملاقات بھی دوستوں سے نہ ہو سکے۔ پنجاب ن لیگ میں ایک شخص ہے جو دوست ہے اسے کبھی وزیر نہیں بنایا جائے گا کہ وہ دوستوں سے ملنا نہیں چھوڑے گا۔ وہ اب بھی وزیر سے زیادہ وزیر ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38