پیر ‘ 4 رمضان المبارک ‘ 1436ھ ‘ 22 جون 2015ئ
سکاٹ لینڈ کے جزیرے میں 50 سال بعد چوری کی پہلی واردات!
خدا جانے یہ لوگ کس دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اتنی یکسانیت سے یہ لوگ بور نہیں ہوتے۔ روٹین کی زندگی، نہ جرم نہ دھوکہ نہ جھوٹ نہ فریب۔ ایسا خاموش اور پرامن معاشرہ تو صرف قصہ خوانوں کے قصوں اور واعظوں کے وعظ میں نظر آتا ہے مگر یہ 50 برسوں میں چوری کی پہلی واردات والی خبر نے تو ہوش اڑا کر رکھ دیئے۔ کیا وہاں انسان آباد نہیں، اگر ہیں تو کیا سارے فرشتہ صفت ہیں۔ کیا وہاں ریڈیو، ٹی وی، اخبار، سینما گھر، مے کدے، قمارخانے نہیں ہیں کہ یہ لوگ اتنی سادہ اور پرامن زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ تو اچھا ہوا کسی مرد حُر نے اس ساکن تالاب میں پہلا پتھر پھینکا اور اس جمود کی حالت کو توڑا۔ حضرت غالب نے بھی شاید اس یک رنگی اور خاموشی کے خوف سے گھبرا کر التجا کی تھی....
کیوں نہ فردوس کو دوزخ میں ملا لیں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
اب اصل مسئلہ یہ نہیں کہ وہاں جرم ناپید ہے، اب جب وہاں پہلا جرم ہوا ہے تو اصل مسئلہ یہ سامنے آیا ہے کہ اس جرم کی رپورٹ کہاں درج کی جائے کیونکہ اس علاقے میں پولیس سٹیشن یا تھانے نام کی کوئی چیز نہیں۔ گویا وہاں پولیس ہے ہی نہیں۔ چونکہ جرم اور پولیس کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے اس لئے نہ وہاں جرم ہے نہ پولیس۔ اب کوئی یہی فارمولا ہمارے ہاں بھی رائج ہو تو مزہ آ سکتا ہے۔ اگر ہم نے بھی اپنے معاشرے کو علاقے کو جرم سے پاک کرنا ہے تو پولیس کو ختم کر دیں.... یا تو معاشرہ ہر قسم کے جرم سے پاک ہو گا یا پھر یہ فارغ پولیس والے بھی باقی جرائم پیشہ افراد کے ساتھ جن کی ابھی تک وہ سرپرستی کر رہے ہیں مل کر اپنام کام سنبھال لیں گے۔ یہ تو ویسے ہی بات سے بات نکل آئی ورنہ دنیا بھر میں چلیں کوئی تو ایسا علاقہ ہے جہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں کے رہنے والوں نے اسے ایک جنتی معاشرہ بنا کر رکھا ہوا ہے.... اور ہم 67 برسوں سے اپنے ملک میں حقیقی معاشرہ بھی قائم نہیں کر سکے اور دعوے جنت کے کرتے نہیں تھکتے!
....٭....٭....٭....٭....٭....
حکمران عوام کو بنیادی سہولتیں نہیں دے سکتے تو ملک ٹھیکے پر دے دیں: الطاف حسین
الطاف بھائی اتنے سیدھے ہیں اسکا علم ان کے اس بیان سے ہوتا ہے یا پھر طویل عرصہ سے وہ ملک سے باہر ہیں، عوام سے کٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی شہریت بھی ترک کر رکھی ہے، انہیں کیا معلوم ہے کہ آج کل پاکستان کے حالات کیسے ہیں، وہاں کیا کچھ چل رہا ہے۔ اگر وہ پاکستان میں رہتے پاکستانی شہریت کو جی جان سے پیارا سمجھتے اور یہاں آتے جاتے تو وہ کبھی ایسا طفلانہ مشورہ نہیں دیتے جو حقائق کا منہ چڑا رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت کیا باقی رہ گیا ہے ٹھیکے پر دینے کیلئے.... ملک کا ہر ایک قابل قدر شعبہ اور ادارہ ہم غیرملکی کمپنیوں کو فروخت کر چکے ہیں یا ٹھیکے پر دے چکے ہیں۔ وہ بھی اپنا کمیشن کھرا کرنے کے بعد اونے پونے داموں۔ لے دے کر اب صرف یہی ایک ملک رہ گیا ہے باقی، اب اس پر بھی بہت سے لوگ حریص نظر ڈالے نظر آتے ہیں۔ سب کچھ ٹھیکے پر دینے کے بعد بھی کیا صلہ ملا، کیا فائدہ ہوا، آج بھی پورے ملک کے حالات اس طرح ابتر ہیں۔ بہتری کی کہیں سے کوئی امید نظر نہیں آتی۔ جس کے ہاتھ جو آ رہا ہے وہ اسے مال مفت سمجھ کر ہضم کرنے کے چکر میں ہے۔ غیرملکی ادارے یا ٹھیکیدار کوئی آسمان سے نہیں اترے وہ بھی ہماری طرح اس دنیا کے باسی ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ یہاں کے حاکم ہوں یا عوام ان کی اکثریت ذاتی مفادات کے تابع ہے تو وہ اس حساب سے ان کے ساتھ برتاﺅ کرتے ہیں۔ یہ انہی غیرملکی ٹھیکیداروں کا ہی کیا دھرا تو ہے کہ ہر لحاظ سے خودکفیل زرعی ملک میں سب سے بڑا قحط اناج کا ہی پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ حکومت کی ملی بھگت سے ہی ہوتا ہے۔ ان چھوٹے ٹھیکیداروں نے ہمارا یہ حال کر دیا ہے تو ذرا سوچئے اگر پورا ملک ہی کسی بڑے ٹھیکیدار کو دیدیا تو وہ کیا حشر کر دے گا یہاں کے غریب عوام کا۔
اس وقت جو آپ کے چھوٹے موٹے ٹھیکیدار سندھ میں عوام کے مسائل حل کرنے کا ٹھیکہ لئے بیٹھے ہیں وہ کیا کر رہے ہیں اگر وہ بھی چور اور نکمے ہیں تو کم از کم انہیں ہی فارغ کر دیں کیونکہ عوام نے ان کو کراچی اور حیدر آباد کا ٹھیکہ حالات درست کرنے کیلئے دیا تھا صرف پرچیوں پہ وصولی کیلئے نہیں۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
طاہر القادری کی 29 جون کو واپسی، لوڈشیڈنگ کیخلاف تحریک شروع کر سکتے ہیں۔
عوام ابھی تک گذشتہ برس کے قادری دھرنا کی چوٹیں سہلا رہے تھے اور تلملا رہے تھے کہ قادری جی انہیں برے حالات میں ادھ موا چھوڑ کر زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے اپنی جیب گرم کر کے اپنے وطن سدھار گئے۔ اب لگتا ہے پھر باسی کڑھی میں ابال آیا ہے جبھی تو وہ پھر پاکستان آ رہے ہیں۔ خدا جانے ان غیرملکیوں کو ہمارے وطن سے اتنی دلچسپی کیوں ہے۔ وہ جہاں رہتے ہیں آرام سے رہیں، اپنے معاملات سدھاریں مگر ان سے نچلا تو بیٹھے رہا نہیں جاتا اور ہر ایک کی نظر کرم ہمارے وطن عزیز پر پڑتی ہے اور ان سب کو اصلاح کا درد اٹھتا ہے ، دھرنے اور احتجاجی سیاست کے زور پر ملک کی حالت بدلنے یا پھر ٹیلی فون کے راستے تھوڑی بہت بچی کھچی حالت بھی بگاڑنے۔
کاش یہ غیرملکی ہمارے اس ارض وطن پر ترس کھائیں، ہمیں ہمارے حال پر ہی چھوڑ دیں تو شاید ان کی بدولت جو نقصان ہوتا ہے کم از کم ہمارا ملک اس سے تو محفوظ رہ سکے۔ اب قادری جی کو دیکھ لیتے ہیں یہ کون سا نیا انقلابی ایجنڈا لے کر وطن آ رہے ہیں۔ انقلابی دھرنا اور انقلاب تو اسلام آباد یا لاہور کے کسی گلی کوچے میں کب کے دفن ہو چکے، اس پر تو اب صرف مزار ہی بن سکتا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ اب اس مزار کی مجاوری کا معاملہ طے کرنے حضرت تشریف لا رہے ہوں مگر عوام کی حالت کچھ یوں ہو گئی ہے۔ بقول شاعر....
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
رہی بات لوڈشیڈنگ کی تو اس کا رونا رونے والے سیاپا کرنے والے بہت لوگ پہلے ہی ملک میں مصروف عمل ہیں مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی البتہ یہاں آ کر قادری صاحب لوڈشیڈنگ کے خلاف دھرنوں اور جلوسوں کی قیادت ضرور کر سکتے ہیں، شاید اس طرح لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام کو کچھ ریلیف مل جائے۔
....٭....٭....٭....٭....٭....