یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پانچ سال سے چودہ سال کی عمر کے 158ملین یعنی دنیا میں اس عمر کا ہر چھٹا بچہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم اور مشقت کرنے پر مجبور ہے۔ ان بچوں کی بہت بڑی تعداد کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ بہترین خوراک، تعلیم ، صحت اور تفریح اور ہر قسم کا جسمانی تحفظ دنیا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کا بنیادی حق ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں لاکھوں بچے اپنے اِن حقوق سے محروم ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 3ملین سے زائد بچے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے مشقت کرنے پر مجبور ہیں اور دوسری طرف ہر سال اوسطاً 6000بچوں کو شیطان نما انسان عناصر تاوان یا پھر زیادتی کے لیے اغوا کرکے قتل کردیتے ہیںلیکن جب بات ان قاتلوں کو سزا دینے کی ہو تو نام نہاد این جی اوز کو انسانی حقوق یاد آجاتے ہیں۔ بچوں کی مشقت کی ایک سب سے بڑی وجہ غربت اور دوسری بڑی وجہ جہالت ہے ۔ غربت کی وجہ سے والدین اپنے پانچ چھ سال عمر کے بچوں کو بھی محنت و مشقت پر لگادیتے ہیں تاکہ اْن کی آمدنی میں خواہ قلیل ہی سہی لیکن اضافہ ہوسکے۔ لاہور کے علاقہ گلشن راوی سے گزرتے ہوئے میں نے خود اپنی آنکھوں سے ایک ایسی بچی کو ہاتھ میں جھاڑو اور پانی کا پائپ پکڑ کر کوٹھی کا بیرونی حصّہ دھوتے ہوئے دیکھا جس کی عمر پانچ چھ سال سے زیادہ ہرگز نہیں تھی۔یہاں میں یہ ذکر کرتا چلوں کہ 1991ء کے چلڈرن ایمپلائمنٹ ایکٹ کے مطابق 34شعبے ایسے ہیں جن میں بچوں کے کام کرنے پر پابندی ہے لیکن ان شعبوں میں گھریلو مشقت شامل نہیں ہے۔ اِسی طرح ملک بھر میں لاکھوں "چھوٹے" ننھے ننھے ہاتھوں میں جھاڑو اور بالٹیاں پکڑ کر گھروں کو دھونے، گریس سے لتھڑے ہوئے ہاتھوں میں اوزار پکڑ کر ورکشاپس میں گاڑیاں مرمت کرنے ، سائیکلوں اور موٹرسائیکلوں کو پنکچر لگانے، ہوٹلوں میں میزیں صاف کرنے ، ٹریفک سگنلز پر چھوٹی چھوٹی چیزیں فروخت کرنے ، جوتے پالش کرنے اور بھٹوں میں اینٹیں بنانے پر مجبور ہیں۔ ایک اور دل دہلا دینے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ انتہائی منظم گروہ بچوں کو اغوا کرکے انہیں معذوری کا شکار بناکر بھیک منگوانے کا دھندہ کرتے ہیں جبکہ غربت کے مارے بہت سے والدین بھی ان گروہوں کو اپنے بچے روزانہ کرائے کی بنیاد پر دے دیتے ہیں۔ یہ بچوں کے حقوق کی پامالی کی بدترین قسم ہے کیونکہ اِس عذاب کا شکار بننے والے بچوں میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ ایک روز جوہرٹائون سے گزرتے ہوئے میں نے فٹ پاتھ پر ایک بچے کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا جو دونوں ٹانگوں سے معذور تھا۔ کیا آپ میری بات کا یقین کریں گے کہ اِس بچے کی عمر چار سال سے زائد ہرگز نہیں تھی، یہ یہ معصوم بچہ فٹ پاتھ پر ہر آنے جانے والے کے آگے ہاتھ پھیلاکر ایک بدترین المیے کی منہ بولتی تصویر بنا بیٹھا تھاحالانکہ اس کا بھی دنیا کی آسائشوں پر اتنا ہی حق تھا جتنا کہ سیاستدانوں کے بچوں کا۔ یقینا یہ بچہ دھندے میں ملوث لوگوں کا اپنا تو ہوگا نہیں، اسے بچپن میں کہیں سے اغواکرکے معذور کیا گیا ہوگا۔ اغوا کرنا اور جان بوجھ کر معذور کرنا انتہائی گھنائونے اور ناقابلِ معافی جرائم ہیں، اس کے باوجود بڑے دھڑے سے اس بچے کو سڑک پر بھیک مانگنے کے لیے بٹھایا گیا تھا۔ یہ بھی ایک بڑی ہولناک حقیقت ہے کہ ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگنے والے عورتوں نے جو بچے اٹھارکھے ہوتے ہیں وہ اِن کے اپنے نہیں ہوتے بلکہ اوسطاً 100روپے روزانہ پر یہ بچے اْن کے اصل والدین سے کرائے پر حاصل کیے جاتے ہیں ، اِن بچوں کو افیون یا کوئی نشہ آور شربت پلا دیا جاتا ہے اور چلچلاتی ہوئی دھوپ میں اِن بچوں کے چہرے دھوپ میں رکھے جاتے ہیں تاکہ ان کی حالت دیکھ کر لوگوں کے دلوں میں رحم اْجاگر ہو اور وہ زیادہ سے زیادہ بھیک دیں۔میرے خیال میں معصوم بچوں کے حقوق کی پامالی کی یہ مکروہ ترین اور بدترین مثال ہے، گداگروں کی پکڑ دھکڑ کرکے کاغذی خانہ پری کردی جاتی ہے لیکن آج تک اس دھندے میں ملوث مافیا کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔پاکستان میں بچوں کے حقوق کی پامالی بالخصوص جبری مشقت سے ملک کی معیشت پر بھی براہِ راست اثرات مرتب ہورہے ہیں کیونکہ ترقی یافتہ نہ صرف اپنے ہاں بچوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھارہے ہیں بلکہ اْن ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھنے سے بھی گریزاں ہیں جہاں بچوں کے حقوق کو تحفظ نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ہمارا میڈیا اور سول سوسائٹی دونوں حقوقِ اطفال کے تحفظ میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو یہ کسی بھی معاشرے کی اصل تصویر کا حقیقی عکاس ہوتا ہے۔ ہمارے میڈیا نے پاکستان میں جمہوریت اور عدلیہ کی بحالی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے اور اگر یہ حقوقِ اطفال کے تحفظ پر کمربستہ ہوجائے تو میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں بچوں کے حقوق کا معاملہ درست ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ اگر سول سوسائٹی حقوقِ اطفال کے لیے کمربستہ ہوجائے تو چند ہی سالوں میں پاکستان کے ہر بچے کو اْس کے بنیادی حقوق حاصل ہوجانا کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ہم میں سے کتنے لوگ ہونگے جنہوں نے فٹ پاتھ پر کسی کم سن بچے کو بھیک مانگتے دیکھ کر یہ کوشش کی ہوگی کہ اِسے اِس عذاب سے چھٹکارا مل جائے اور اْس کے اپنے بچوں کی طرح اسے بھی تمام بنیادی حقوق حاصل ہوں، کتنے لوگوں نے کسی ورکشاپ پر کام کرتے ہوئے ننھے مستری یا پھر ہوٹل میں صفائی کرنے والے ننھے ملازم کو دیکھ کر یہ عزم کیا ہوگا کہ میں اِسے اِس کے حقوق دلانے کے لیے آواز بلند کروں گا، کتنے لوگوں نے کسی یتیم اور لاوارث بچے کو دیکھ کر یہ عہد کیا ہوگا کہ میں اِسے زمانے کی ٹھوکریں نہیں کھانے دوں گا۔ سوسائٹی کا ایک بہت بڑا حصّہ سڑک پر بھیک مانگتے ہوئے، کڑی محنت مشقت کرتے ہوئے، پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک وقت کی روٹی کو ترستے ہوئے بچوں کو دیکھ کر اظہار افسوس کرکے اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہوجاتا ہے یا پھر کسی یتیم مسکین لاوارث کمسن بچے کو اپنے بچوں کے ہاتھوں صدقہ خیرات دلواکر اپنے تئیں ثواب کما لیتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ کسی بچّے کو صرف اس وجہ سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم نہیں رہنا چاہیے کہ وہ کسی غریب کے گھر پیدا ہوا ہے یا اْس کے ماں باپ اْسے اِس جہان فانی میں ہمیشہ کے لیے اکیلا چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے۔ سوسائٹی کو ان والدین میں شعور و آگہی پیدا کرنے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جو اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا ضروری نہیں سمجھتے۔ اگر سوسائٹی اور میڈیا مل کر اپنا کردار ادا کریں تو مستقبل میں ملک کو بہت سے ایسے عظیم سائنسدان، ڈاکٹر ،انجینئرز اور پائلٹ مل سکتے ہیں جو آج کسی ورکشاپ یا ہوٹل میں محنت مشقت کرکے زندگی جبرِمسلسل کی طرح کاٹ رہے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024