سپریم کورٹ کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بجٹ کی منظوری تک اضافہ واپس لینے کا حکم ....حکومت جی ایس ٹی پر اضافہ سرے سے ختم کرکے اپنی مقبولیت بحال کرسکتی ہے
سپریم کورٹ کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بجٹ کی منظوری تک اضافہ واپس لینے کا حکم ....حکومت جی ایس ٹی پر اضافہ سرے سے ختم کرکے اپنی مقبولیت بحال کرسکتی ہے
سپریم کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی کی شرح میں 16 سے 17 فیصد اضافے کا پارلیمنٹ سے منظوری سے قبل ہی مارکیٹ میں نفاذ کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے 1931ءکے ایکٹ کو غیرآئینی قرار دے دیا جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے کا حکم دیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ حکومت کو اضافی ٹیکس لینے کا اختیار نہیں ہے‘ جب تک پارلیمنٹ اسکی اجازت نہ دے اور قرار دیا کہ 13 جون ‘ یعنی جس دن وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ پیش کیا‘ اسی دن سے اضافی ٹیکس کی وصولی غیرآئینی ہے۔ عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو قیمتیں کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ عدالت نے سی این جی پر اضافی 9 فیصد ٹیکس واپس لینے اور کھانے پینے کی چیزوں پر ٹیکس وصول نہ کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ ٹیکس کو غیرقانونی دیئے جانے کا مختصر فیصلہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس کی وصولی غیرقانونی ہے اور آئین کے آرٹیکل 39,70 اور 24 کی منافی ہے۔ فنانس بل کی منظوری کے بغیر ٹیکس وصول نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اضافی جی ایس ٹی نافذ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ پٹرولیم مصنوعات‘ سی این جی یا دیگر قابل ٹیکس سپلائی پر لیا گیا جی ایس ٹی قابل واپسی ہے۔ سی این جی پر 9 فیصد اضافی سیلز ٹیکس بھی رجسٹرار کو جمع کرایا جائے جبکہ اوگرا سی این جی کی قیمتیں 16 فیصد سیلز ٹیکس کیمطابق وصولی کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ نے 13 جون سے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر جی ایس ٹی کا نفاذ منظور کیا تو رقم قومی خزانے میں جائیگی‘ بصورت دیگر عدالت اس رقم کی تقسیم کے بارے میں مناسب حکم جاری کریگی۔ میڈیا رپورٹس کیمطابق اوگرا نے پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں پر نافذ کیا گیا ٹیکس واپس لے لیا ہے۔
نئی حکومت کا پہلا بجٹ آتے ہی جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافے کا جواز بنا کر پٹرولیم مصنوعات‘ سی این جی‘ ادویات‘ الیکٹرانکس کی اشیائ‘ گھی‘ سیمنٹ اور روزمرہ استعمال کی دیگر اشیاءمیں ازخود اضافہ کردیا گیا۔پٹرولیم مصنوعات میں رواں ماہ کے پہلے 13 دنوں میں یہ دوسرا اضافہ تھا۔ وزارت پٹرولیم نے اس سلسلہ میں 1931کے ایکٹ کی آڑ میں پٹرولیم مصنوعات کے نئے نرخوں سے متعلق نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا جس کے تحت پٹرول‘ ڈیزل اور مٹی کے تیل کے نرخوں میں فی لٹر ایک روپے تک اضافہ ہو گیا جبکہ سی این جی کے نرخوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ کیا گیا۔ چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا اپنے ازخود اختیار کے تحت نوٹس لیا ۔ فاضل چیف جسٹس نے اس سلسلہ میں اپنے ریمارکس میں قرار دیا تھا کہ نامنظور کردہ جی ایس ٹی اضافے کی بنا پر قیمتوں میں اضافہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ازخود اختیار کے تحت اس کیس کی سماعت کا فیصلہ رجسٹرار سپریم کورٹ کے اس نوٹ پر کیا گیا کہ جی ایس ٹی میں اضافہ بجٹ کے اندر تجویز کیا گیا ہے جبکہ آئین کے مطابق فنانس بل کی منظوری تک یہ اضافہ لاگو نہیں کیا جا سکتا۔اس پر گزشتہ روز سپریم کورٹ کی طرف سے واضح فیصلہ آگیا۔
ہر حکومت بجٹ پیش کرنے کے موقع پر اسکے عوام دوست ہونے کے بانگ دعوے کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ موجودہ حالات میں اس سے بہتر بجٹ پیش نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان دونوں دعوﺅں میں حقیقت کا عنصر مفقود ہوتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نئی حکومت تو ایسا قطعی نہیں کہہ سکتی۔ 12 مئی کو بجٹ پیش ہونے کے ساتھ ہی مہنگائی کے ریلے نے عوام کی چیخیں نکلوادیں۔ یہ بجٹ عوام دوستی سے زیادہ عوام کش نظر آیا۔ مو¿خرالذکر دعویٰ حقیقت سے لگا اس لئے نہیں کھاتا کہ آپ جنگ‘ استعماریت یا آمریت کے خاتمے کے بعدتو بجٹ نہیں بنا رہے۔ ایک جمہوری حکومت سے منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار کا پرامن انتقال ہوا ہے۔ گو گزشتہ حکومت پر کرپشن کے الزامات تھے جسکے باعث کئی ادارے کمزور ہوئے‘ تاہم پیپلز پارٹی کی حکومت قومی وسائل اپنے ساتھ نہیں لے گئی‘ نواز لیگ کی حکومت کو ڈوبتی ہوئی معیشت ضرور ملی ہے‘ ملک پر قرضوں کا بوجھ اور توانائی کا شدید بحران ہے‘ جس نے عام آدمی کی زندگی کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ضرورت تو معاشرتی زندگی کو ریلیف فراہم کرنے کی تھی۔ اسکے دکھوں کا مداوا کیا جاتا‘ اس کیلئے آسانیاں پیدا کی جاتیں‘ اسی کے دعوے اور وعدے مسلم لیگ (ن) کی قیادت انتخابی مہم میں کرتی رہی لیکن جب اقتدار ہتھیلی پر آیا تو سب کچھ نہ سہی‘ بہت کچھ بھولتا ہوا نظر آیا یا اسے جان بوجھ کر نظرانداز کر دیا گیا۔ اسکی طرف سے قومی ایشوز پر بھی سودے بازی نظر آئی۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماءبجلی کے بحران اور لوڈشیڈنگ کو کرپشن کا شاخسانہ قرار دیتے رہے۔ یہ بھی کہتے رہے کہ پاکستان کے پاس بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ضرورت کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے لیکن اب وہ بھارت سے 2 ہزار میگاواٹ بجلی خریدنے کی بات کر رہے ہیں۔ قوم بھارت کیساتھ ہر معاملے میں حساس واقع ہوئی ہے۔ میاں نواز شریف کی طرف سے منموہن سے پاکستان کے دورے کا اصرار اور بن بلائے بھارت جانے کا اعلان سے مسلم لیگ (ن) کی عوام میں مقبولیت متاثر ہوئی ہے‘ اس میں مزید کمی بجٹ میں سرکاری ملازمین کو نظرانداز اور ٹیکسوں میں اضافے سے ہوئی ہے۔ ملازمین کے احتجاج پر حکومت نے تنخواہوں میں اضافہ کیا اور سپریم کورٹ کے حکم پر 1931 کے ایکٹ کے تحت کیا گیا اضافہ واپس لے لیا گیا‘ ایسے اقدامات مسلم لیگ (ن) کے بزرجمہروں کی سیاسی بصارت پربھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پوسٹ بجٹ تقریر میں فرمایا تھا کہ عام آدمی یعنی متوسط غریب اور پسماندہ طبقات پر ٹیکسوں کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ اسی دعوے کی قلعی ٹور اپریٹرز پر فی حاجی دو ہزار اور بجلی گیس پر ایک فیصد جی ایس ٹی ٹیکس کے نفاذ سے کھل جاتی ہے۔ یہ ٹیکس ٹوراپریٹرز اپنی جیب سے فی حاجی تو ادا نہیں کرینگے‘ یقیناً یہ بوجھ وہ حاجیوں پر ہی ڈالیں گے۔ ہمارے معاشرے میں لوگ جس طرح حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ لوگ ساری زندگی پائی پائی جوڑ کر حج کیلئے رقم کا بندوبست کرتے ہیں تو عین موقع پر حکومت کی طرف سے اسکے اخراجات میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ ان کیلئے دو ہزار معمولی رقم نہیں۔ ایک فیصد جی ایس ٹی ٹیکس کے اصولی نفاذ سے قبل ہی اسکے مظاہر نظر آگئے۔ مارکیٹ میں ہر چیز کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہو گیا۔ ٹرانسپورٹروں نے اپنی مرضی سے کرائے بڑھا دیئے۔ لوگ گزشتہ کی طرح موجودہ حکومت کو بھی کوسنے سنا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ووٹر شرمندہ اور سپورٹر ان سے منہ چھپا رہے ہیں۔ عوام کسی کو شکلیں دیکھ کر منتخب نہیں کرتے‘ انکی کارکردگی جانچتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی عوامی مصائب میں اضافہ کیا تو اس کا انجام بھی 11 مئی میں عوامی نفرت کا نشانہ بننے والی پیپلز پارٹی سے مختلف نہیں ہو گا۔ میڈیا نے بجٹ کی منظوری سے قبل جی ایس ٹی نفاذ کو غیرقانونی قرار دیا تھا۔ اس پر حکمرانوں نے کان نہیں دھرا۔ سپریم کورٹ نے ازحد نوٹس لیا اور اس کیخلاف ریمارکس دیئے تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بڑی رعونت سے کہا تھا جو اسکی مخالفت کر رہے ہیں‘ وہ ہمیں 60 ارب روپیہ دے دیں‘ ہم بجٹ کی منظوری تک یہ ٹیکس نہیں لگاتے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کو کسی کی ہزیمت اور کسی کی کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کو ایسے معاملات کا نوٹس لینے کا اختیار ہے جو اس نے استعمال کیا۔ یہ فیصلہ عوامی مفاد میں آیا ہے جس کی ہر سطح پر تحسین ہو رہی ہے۔ حکومت اس فیصلے کو اپنی حمایت میں بڑی آسانی سے بدل سکتی ے اور جی ایس ٹی کے بجائے ویٹ نافذ کرکے اور اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت بحال کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق جی ایس ٹی میں ایک فیصد اضافہ بجٹ کی منظوری کے بعد ہو سکتا ہے۔ حکومت جی ایس ٹی میں کیا گیا اضافہ سرے سے واپس لے لے اور نو دن تک جن اشیاءپر اضافہ شدہ جی ایس ٹی وصول کی گئی‘ اگلے نو دن تک ان میں اتنی ہی کمی کر دی جائے۔ حکومت کیلئے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کی طرف سے ازخود بڑھائی گئی قیمتوں کو واپس اپنی سطح پر لانا بھی ایک آزمائش ہے جس میں اسے تمام صلاحتیں بروئے کار لا کر سرخرو ہونا چاہیے۔