اتنی تو ملک میں جمہوریت نہیں آتی جتنے سال میں بجٹ آتے ہیں۔ پہلے سال میں صرف ایک بجٹ آتا تھا‘ اب بار بار آتے ہیں کسی زمانے میں بجٹ تقریر کو بڑے ذوق سے شوق سے سنا جاتا تھا جیسے ڈرامہ ’’وارث‘‘ دیکھا جاتا تھا۔ اب کوئی ڈرامہ دیکھنے کے قابل نہ بجٹ تقریر سننے کے۔ ڈرامے لکھنے والے بھی اب ویسے ہی ہوگئے جیسے بجٹ بنانے والے ’’سترہ کروڑ بھیڑ بکریوں‘‘ کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے اس سال انہیں ذبح کرنے کیلئے کون کون سے نئے ہتھیار آزمائے جائیں گے‘‘۔ سو اس کیلئے وہ ذہنی طور پر پہلے سے تیار ہوتے ہیں۔ کبھی بجٹ کی خرابیوں پر ایسا زبردست احتجاج ہوتا تھا کہ سرکار کو بجٹ میں کئے گئے کئی عوام دشمن فیصلے واپس لینا پڑتے تھے۔ اب احتجاج صرف تقریروں اور اخباری بیانات تک ہی محدود ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے سرکار عوام دشمن فیصلے کرنے میں خود کو مادرپدر آزاد سمجھتی ہے۔
حالیہ بجٹ میں انہی کے اشاروں پر بنایا گیا معلوم ہوتا ہے جن کے اشاروں پر حکومت چلائی جارہی ہے کن کے اشاروں پر حکومت چلائی جارہی ہے؟ ایسا راز نہیں جس پر اب کوئی پردہ پڑا ہو۔ بجٹ میں سب سے زیادہ مایوسی سرکاری ملازمین کو ہوئی۔ ان کی تنخواہوں میں ’’پورے پندرہ فیصد اضافہ‘‘ کر دیا گیا۔ نچلے گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافہ ایسے ہی ہے جیسے خالی گلاس میں پندرہ قطرے پانی ڈال کر پیاسے سے کہا جائے لو بھائی جتنی چاہو پیاس بجھا لو۔ بجٹ چونکہ ’’اُونچے گریڈ‘‘ کے افسران بناتے ہیں اور انہیں یہ اختیار ہوتا ہے کہ اپنی تنخواہیں جب چاہیں اور جتنی چاہیں بڑھا لیں تو نچلے گریڈ کے ملازمین کی سال میں ایک بار تنخواہیں بڑھانے میں اتنی ہی کنجوسی دکھاتے ہیں جتنی سال میں بار بار اپنی تنخواہیں بڑھانے کے معاملے میں فراخدلی دکھاتے ہیں۔ گر ان کے بچے بھی بھوکے سوتے ہوں‘ مکانوں کرایے انہیں بھی دینا پڑیں‘ ان کا بال بال بھی قرضے میں پھنسا ہو‘ بچوں کی فیس وغیرہ ادا کرنے کیلئے ان کے پاس بھی پھوٹی کوڑی نہ ہو‘ بل دینے کیلئے انہیں بھی بلبلانا پڑے تو پتہ چلے کیا بھائو بکتی ہے۔
انہیں پلے سے کچھ خریدنا پڑے تو پتہ چلے ناں کیا بھائو بکتی ہے؟ ان کے پاس تو سب کچھ بنا بنایا‘ پکا پکایا آجاتا ہے‘ جنہیں اپنی کوئی فکر نہیں کسی کی کیوں ہوگی؟ ساری فکریں اور فاقے تو ’’سترہ کروڑ بھیڑ بکریوں‘‘ کو ہیں‘ پہلے صرف پیٹ کی فکر تھی اب جان کے لالے بھی پڑے ہیں … ایسے میں ’’جمہوری کم زرداری سرکار‘‘ کا فرض بھلا کیا ہے؟ یہی کہ عوام کو جھوٹی تسلیاں دے اور اپنی تمام نااہلیوں اور ناکامیوں کو ’’پچھلی حکومت‘‘ کے کھاتے میں ڈال دے اور پچھلی حکومت کے کھاتے بھی نہ کھولے۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے پچھلی حکومت بھی انہی کی حکومت تھی۔ میں نے تو پہلے بھی کئی بار عرض کیا حکمران سیاسی ہوں یا فوجی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ انہیں بیس کا فرق گر ہو بھی تو اپنے لئے ہوتا ہے۔ عوام کیلئے سب کی سوچ یکساں ہی ہوتی ہے۔ یہ حقیقت بھی آہستہ آہستہ آشکار ہوتی جارہی ہے کہ آنے والے حکمران جانے والوں سے بہت بہتر محسوس ہوتے ہیں مگر کچھ ہی عرصے بعد جانے والے آنے والوں سے کہیں بہتر محسوس ہونے لگتے ہیں۔ سو آج اگر کچھ لوگ جانے والوں کی یاد میں آنسو بہاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو اس کا تمام تر کریڈٹ ان آنے والوں کو جاتا ہے اپنی حرکتوں سے جو اب جانے والے محسوس ہوتے ہیں۔
یہ بھی دلچسپ امر ہے بجٹ کے معاملے میں بھی محترم وزیراعظم لاتعلق دکھائی دیئے‘ جیسے وہ اکثر حکومتی معاملات میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے اختیارات پر کبھی کبھی بے اختیار رونا آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے انہوں نے بھی بجٹ ٹیلی ویژن پر ہی سنا ممکن ہے بجٹ کے کچھ حصوں پر عوام کی طرح وہ بھی احتجاج کرنا چاہتے ہیں مگر ظاہر ہے وزیراعظم کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اب فرماتے ہیں ایس ایم ایس پر عائد بیس پیسے کا اضافہ واپس لے لیا جائیگا۔ مجھے نہیں معلوم انہوں نے یہ بیان بجٹ تیار کرنے والے ’’بدترینوں‘‘ کی اجازت سے دیا یا نہیں لیکن اگر یہ اضافہ واپس لے لیا جائے تو ممکن ہے اس ’’نیکی‘‘ کے بدلے میں سرکار خصوصاً صدر مملکت کی شان میں روزانہ تھوک کے حساب سے موصول ہونے والے پیغامات میں کچھ کمی واقع ہوجائے۔ صدر مملکت سے گزارش ہے کم از کم اس حوالے سے وزیراعظم کی ہاں میں ہاں ضرور ملا دیں کہ اس سے دوسروں کے علاوہ ان کا اپنا بھلا بھی ہوگا!
حالیہ بجٹ میں انہی کے اشاروں پر بنایا گیا معلوم ہوتا ہے جن کے اشاروں پر حکومت چلائی جارہی ہے کن کے اشاروں پر حکومت چلائی جارہی ہے؟ ایسا راز نہیں جس پر اب کوئی پردہ پڑا ہو۔ بجٹ میں سب سے زیادہ مایوسی سرکاری ملازمین کو ہوئی۔ ان کی تنخواہوں میں ’’پورے پندرہ فیصد اضافہ‘‘ کر دیا گیا۔ نچلے گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافہ ایسے ہی ہے جیسے خالی گلاس میں پندرہ قطرے پانی ڈال کر پیاسے سے کہا جائے لو بھائی جتنی چاہو پیاس بجھا لو۔ بجٹ چونکہ ’’اُونچے گریڈ‘‘ کے افسران بناتے ہیں اور انہیں یہ اختیار ہوتا ہے کہ اپنی تنخواہیں جب چاہیں اور جتنی چاہیں بڑھا لیں تو نچلے گریڈ کے ملازمین کی سال میں ایک بار تنخواہیں بڑھانے میں اتنی ہی کنجوسی دکھاتے ہیں جتنی سال میں بار بار اپنی تنخواہیں بڑھانے کے معاملے میں فراخدلی دکھاتے ہیں۔ گر ان کے بچے بھی بھوکے سوتے ہوں‘ مکانوں کرایے انہیں بھی دینا پڑیں‘ ان کا بال بال بھی قرضے میں پھنسا ہو‘ بچوں کی فیس وغیرہ ادا کرنے کیلئے ان کے پاس بھی پھوٹی کوڑی نہ ہو‘ بل دینے کیلئے انہیں بھی بلبلانا پڑے تو پتہ چلے کیا بھائو بکتی ہے۔
انہیں پلے سے کچھ خریدنا پڑے تو پتہ چلے ناں کیا بھائو بکتی ہے؟ ان کے پاس تو سب کچھ بنا بنایا‘ پکا پکایا آجاتا ہے‘ جنہیں اپنی کوئی فکر نہیں کسی کی کیوں ہوگی؟ ساری فکریں اور فاقے تو ’’سترہ کروڑ بھیڑ بکریوں‘‘ کو ہیں‘ پہلے صرف پیٹ کی فکر تھی اب جان کے لالے بھی پڑے ہیں … ایسے میں ’’جمہوری کم زرداری سرکار‘‘ کا فرض بھلا کیا ہے؟ یہی کہ عوام کو جھوٹی تسلیاں دے اور اپنی تمام نااہلیوں اور ناکامیوں کو ’’پچھلی حکومت‘‘ کے کھاتے میں ڈال دے اور پچھلی حکومت کے کھاتے بھی نہ کھولے۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے پچھلی حکومت بھی انہی کی حکومت تھی۔ میں نے تو پہلے بھی کئی بار عرض کیا حکمران سیاسی ہوں یا فوجی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ انہیں بیس کا فرق گر ہو بھی تو اپنے لئے ہوتا ہے۔ عوام کیلئے سب کی سوچ یکساں ہی ہوتی ہے۔ یہ حقیقت بھی آہستہ آہستہ آشکار ہوتی جارہی ہے کہ آنے والے حکمران جانے والوں سے بہت بہتر محسوس ہوتے ہیں مگر کچھ ہی عرصے بعد جانے والے آنے والوں سے کہیں بہتر محسوس ہونے لگتے ہیں۔ سو آج اگر کچھ لوگ جانے والوں کی یاد میں آنسو بہاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو اس کا تمام تر کریڈٹ ان آنے والوں کو جاتا ہے اپنی حرکتوں سے جو اب جانے والے محسوس ہوتے ہیں۔
یہ بھی دلچسپ امر ہے بجٹ کے معاملے میں بھی محترم وزیراعظم لاتعلق دکھائی دیئے‘ جیسے وہ اکثر حکومتی معاملات میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے اختیارات پر کبھی کبھی بے اختیار رونا آتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے انہوں نے بھی بجٹ ٹیلی ویژن پر ہی سنا ممکن ہے بجٹ کے کچھ حصوں پر عوام کی طرح وہ بھی احتجاج کرنا چاہتے ہیں مگر ظاہر ہے وزیراعظم کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اب فرماتے ہیں ایس ایم ایس پر عائد بیس پیسے کا اضافہ واپس لے لیا جائیگا۔ مجھے نہیں معلوم انہوں نے یہ بیان بجٹ تیار کرنے والے ’’بدترینوں‘‘ کی اجازت سے دیا یا نہیں لیکن اگر یہ اضافہ واپس لے لیا جائے تو ممکن ہے اس ’’نیکی‘‘ کے بدلے میں سرکار خصوصاً صدر مملکت کی شان میں روزانہ تھوک کے حساب سے موصول ہونے والے پیغامات میں کچھ کمی واقع ہوجائے۔ صدر مملکت سے گزارش ہے کم از کم اس حوالے سے وزیراعظم کی ہاں میں ہاں ضرور ملا دیں کہ اس سے دوسروں کے علاوہ ان کا اپنا بھلا بھی ہوگا!