کچھ عرصہ سے اصطلاحات \\\"گورننس\\\" اور\\\" گڈ گورننس\\\" کا استعمال زباں زد عام ہو چلا ہے۔ بالخصوص اقتصادی ترقی کے حوالے سے یہ اصطلاحات زیادہ سننے میں آنے لگی ہیں۔ خراب گورننس یا Bad Governance کو بالعموم معاشرہ میں خرابیوں کی جڑ تصور کیا جاتا ہے۔امداد فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے اور ممالک امداد کو گُڈ گورننس سے مشروط کرنے لگے ہیں اورا صرار کرتے ہیں کہ امداد وصول کرنے والے اپنے یہاں گورننس کا معیا ربہتر کریں تاکہ امداد سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکیں۔
گورننس ایسا کوئی نیا نظریہ بھی نہیں ہے ۔بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ یہ اتنا ہی پرانا اور قدیم ہے جتنا انسانی تہذیب۔ گورننس سے مراد وہ اسلوب یا طریقہ کار ہے جس کے ذریعہ فیصلے کئے جاتے ہیں یا جس کے ذریعہ اُن فیصلوں پر عمل درآمد کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مختلف شعبوں میںاس کا حسب ذیل شمار کیا جا سکتا ہے جیسے بین الاقوامی گورننس، قومی گورننس اور مقامی گورننس ۔ چونکہ گورننس فیصلے کرنے کے طریقہ کار یا ان فیصلوں پر عمل درآمد کا نام ہے۔ اس کے تجزیہ میں وہ تمام عوامل زیر بحث آنے چاہئیں جو اس میں شامل ہوں۔حکومت ان میں ایک حصہ ہے۔دوسرے شعبوں کا جائزہ لیتے وقت متعدددیگر امور پر توجہ دینا ہو گی۔ مثال کے طور پر دیہاتی معاشرہ میں گورننس کا ذکر کرتے وقت یا تجزیہ کرتے وقت ان عوامل کو پیش نظر رکھنا ہو گا جو دیہاتی زندگی کا رُخ متعین کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ان میں بااثر زمیندار ہو سکتے ہیں، کاشتکار تنظیمیں ہو سکتی ہیں،امداد باہمی کی تنطیمیں، نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز، ریسرچ کرنے والے ادارے، مذہبی یا دینی قائدین، مالیاتی ادارے، سیاسی جماعتیں وغیرہ سب ہی شامل ہو جاتی ہیں اور یہ سب مل کر دیہاتی زندگی کا رُخ متعین کرتی ہیں ۔ شہری زندگی میں زیادہ دشواریاں اور پیچیدگیاں شامل ہو جاتی ہیں،قومی سطح پر لوبئسٹ (Lobyist) میڈیا، امداد فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے اور Multinational Corporations فیصلہ سازی اور ان پر عمل درآمد کے عمل پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
حکومت اور فوج کے علاوہ دیگر تمام کرداروں کو مجموعی طور پر سول سوسائٹی کا نام دیا جاتا ہے۔گویا کہ سول سوسائٹی گورننس کا رُخ اور معیار متعین کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔کچھ ممالک میں جرائم پیشہ لوگوں کے سینڈیکیٹ بھی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں اور اس طرح وہ بھی فیصلہ سازی اور ان پر عمل در آمدمیں اثر انداز ہوتے ہیں۔یہ لوگ شہری مراکز اور قومی سطح کے فیصلوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
فیصلہ سازی میں ایک تو رسمی ادارے (Formal Structure) یہ کام سر انجام دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ غیر رسمی ادارے بھی ہوتے ہیں جو یہ کام سر انجام دیں،جیسے کچن کیبنٹ یا غیر رسمی مشیر،شہری علاقوں میںمنظم کرائم سینڈیکیٹ جیسے لینڈ مافیا وغیرہ ایسے ادارے ہیں جو فیصلہ سازی پر اثر اندازہوتے ہیں۔یہ غیر رسمی کردار یا تو کرپشن کی وجہ سے معرض وجود میں آتے ہیں یا پھر ان کی وجہ سے کرپشن فروغ پاتی ہے۔یوں توہمارے قریب قریب ہر بڑے شہر میں لینڈ مافیا موجود ہے لیکن کراچی اور لاہور میں انکا وجود اور اس سے پیدا ہونے والے مضر اثرات شہری زندگی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔
گڈ گورننس کے اجزائے ترکیبی میں آٹھ عوامل شامل ہیں۔
-1 پہلے تو یہ کہ اس میں stake holders کی شراکت ہوتی ہے۔ گویاکہ فیصلہ سازی میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو ان سے متاثر ہوں گے۔
-2 دوسرے یہ کہ عمومی اتفاق رائے کا حصول اس کا مطمع نظر ہو۔
-3گڈ گورننس (stake holders) کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔
-4 یہ (Transparency) شفاف اور کھلے طریقے سے کام کرتی ہے۔
-5 لوگوں کی تکالیف اور ضروریات کا احساس کر کے انہیں دور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
-6 موثر ، متعین اور انصاف پر مبنی ہوتی ہے اور قانون پر سختی سے عمل پیرا۔
-7 اس میں کوشش کی جاتی ہے کہ کرپشن کو کم از کم رکھا جائے، اقلیت کی آراء کو بھی فیصلہ سازی میں جگہ دی جائے۔
-8 معاشرہ میں سب سے کمزور طبقات کی آواز کو سنا جائے اور اسے فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے۔ گڈ گورننس میں سوسائٹی کی موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کا پورا پورا خیال رکھا جائے۔
گڈ گورننس میں مرد اور خواتین برابر کی حصہ دار ہوتی ہیں اور یہی اس پروسس کا ایک اہم پہلو ہے۔شراکت براہِ راست بھی ہو سکتی ہے یا حقیقی نمایندہ اداروں اور نمائندگان کے ذریعے۔ یہاں یہ تذکرہ مناسب معلعوم ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ جمہوری نظام میں معاشرہ کے نحیف اور کمزور طبقات کی آواز سننے اور اسے فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے۔شراکت منظم ، مربوط اور معلومات پر مبنی ہونی چاہیے۔اس کے لئے ایک طرف تو آزادی اظہار کی ضرورت ہے اور دوسری طرف ایک منظم اور مربوط سول سوسائٹی کی، جو آزادی کے ساتھ اجتماعی طور پر اپنی ضروریات اور تکالیف بیان کر سکیں۔ اس طرح گڈ گورننس کوپنپنے اور فروغ پانے کے لئے قانون کی عمل داری بھی ناگزیر ہے۔ قوانین انصاف پر مبنی ہوں اور غیر جانبدارانہ طریق سے ان پر عمل درآمد ہو۔انسانی حقوق کا پورا پورا تحفظ بھی اس کی ایک بنیادی ضرورت ہے بالخصوص ان طبقات کے حقوق جو معاشرہ میں اقلیت میں ہوں۔قوانین کی غیر جانبدارانہ عمل درآمد کے واسطے آزادعدلیہ اور غیر جانبدار پولیس فورس کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسی پولیس فورس جو کرپشن سے پاک صاف ستھری ہو۔
فیصلہ سازی اور ان پر عمل در آمد قاعدے قانون کے مطابق ہونا چاہیے اور اس بات کا اہتمام بھی ہو کہ لوگ جو ان فیصلوں سے متاثرہونے جا رہے ہیں آزادی اور آسانی سے ان کے متعلق تمام معلومات حاصل کر سکیں۔اس کے علاوہ گڈ گورننس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ تمام شراکت داروں کو ان کے اثرات سے آگاہ کر سکیں۔معاشرہ میں متعدد نظریات اور ان نظریات کے حامل خواتین و حضرات ہر وقت موجود رہتے ہیں۔گڈ گورننس ان مختلف اور بسا اوقات متضاد نظریات میں ایک طرح کی ہم آہنگی اور تال میل پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ ایسی صورت حال ہو اور ماحول پیدا کیا جا سکے جو سوسائٹی کے بہترین مفاد میں ہو۔اس کے لئے ضروری ہوتا ہے ایک وسیع البنیاد نظریہ جو معاشرہ میں ترقی کے عمل کو جاری رکھنے کی ضمانت بن سکے۔اور کس طرح ایسی ترقی کے مقاصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ کسی بھی سوسائٹی کے تاریخی ، ثقافتی ، سماجی پس منظر سے مکمل آگہی کے بغیر ممکن نہیں۔
کسی سوسائٹی کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ اس کے افراد محسوس کریں کہ وہ اس کا لازمی حصہ ہیں اور وہ خود کو سوسائٹی کے دھارے سے باہر محسوس نہ کریں۔یہ بات سوسائٹی میں موجود طبقات بالخصوص کمزور طبقات کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے حالات بہتر بنا سکیں۔ گڈ گورننس سے مراد ایسے ادارے اور طریق کار ہیں جو کسی معاشرہ میں دستیاب وسائل کا ایسے استعمال کریں کہ اس سے سوسائٹی کی ضروریات پوری ہو سکیں۔
احتساب گڈ گورننس کی بنیادی ضرورت ہے۔حکومت اور سرکاری ادارے ہی نہیںپرائیویٹ سیکٹر اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی عوام کے سامنے جواب دہ ہونا چاہئیں۔ بالعموم کہا جا سکتا ہے کہ ادارہ ان لوگوں کے سامنے جوابدہ ہے جو اس کے فیصلوں سے متاثر ہوتے ہیں۔احتساب قاعدہ قانون پر عمل درآمد اور شفاف اقدامات کے بغیرممکن نہیں۔
بات مختصر کرنا مقصود تھا لیکن کورننس اور گڈ گورننس کی تعریف اور اس کے اجزائے ترکیبی کی وضاحت کے بغیر بات ادھوری رہتی۔ اس مقالہ کے بعد قارئین کو اندازہ ہو جائے گاکہ ہم پاکستانی ابھی گڈ گورننس سے کتنی دور ہیں۔ہمارے یہاں فیصلے بالعموم افراد کرتے ہیں جن لوگوں پر ان فیصلوں کا اثر ہوتا ہے یا جو لوگ ان سے متاثر ہوتے ہیں ان سے مشاورت شاذو نادر ہی ہوتی ہے۔ قاعدے قانون کا کوئی لحاظ رکھا جاتا ہے نہ فیصلے عوام کی ضروریات اور مطالبات سے مطابقت رکھتے ہیں۔سیاسی جماعتیں بھی بنیادی طور پر غیر جمہوری ہیں اور اپنے قائدین کی جیب کا زیور ہیں۔قائدین فیصلہ کرتے وقت فلاح عامہ کا نہیں ذاتی مفاد کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ سول سوسائٹی ہمارے ملک میں وسیع پیمانے پر ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکی اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا دم خم پیدا ہو سکا ہے۔عدلیہ کی بحالی ایک ایسا موقعہ تھا جس پر سول سوسائٹی نے اپنا آپ منوایا۔ لیکن ابھی \\\"مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں\\\"۔اللہ کرے ہمارے ملک میں سول سوسائٹی پنپے اور متعلقہ شعبے اس قدر توانا ہو جائیں کہ وہ فیصلے عوام کی ضروریات اور امنگوںکے مطابق کروانے کا گُر سیکھ لیں۔فیصلے جن میں سرکار ی اور غیر سرکاری شعبہ دونوں شامل ہیں۔ جیسا پہلے عرض کیا گیا ابھی ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ گڈ گورننس تو غالباً دور کی بات ہے ابھی تو عوام کو گورننس تک کااحساس نہیں۔ہر آنے والا حکمران عمارت نو تعمیر کرنے میں محو ، اور جو کام اس سے پہلے مکمل ہو چکا ہو اس میں طرح طرح کے کیڑے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔
سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کے فقدان کے سبب اقتدار حاصل کرنے والی جماعت کے افراد بھی اقتدار میں آنے سے پہلے کئے گئے فیصلوں ، جاری کردہ پالیسیوں، یہاں تک کہ مکمل شدہ منصوبہ جات تک کو تباہ کر دینا اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں، اور کم و بیش کبھی بھی ان فیصلوں میں ان لوگوں کی رائے نہیں لی جاتی جو براہ راست ان سے متاثر ہوں۔یہ سب کچھ گڈ گورننس کے نام پر کیا جاتا ہے لیکن گڈ گورننس سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
گورننس ایسا کوئی نیا نظریہ بھی نہیں ہے ۔بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ یہ اتنا ہی پرانا اور قدیم ہے جتنا انسانی تہذیب۔ گورننس سے مراد وہ اسلوب یا طریقہ کار ہے جس کے ذریعہ فیصلے کئے جاتے ہیں یا جس کے ذریعہ اُن فیصلوں پر عمل درآمد کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مختلف شعبوں میںاس کا حسب ذیل شمار کیا جا سکتا ہے جیسے بین الاقوامی گورننس، قومی گورننس اور مقامی گورننس ۔ چونکہ گورننس فیصلے کرنے کے طریقہ کار یا ان فیصلوں پر عمل درآمد کا نام ہے۔ اس کے تجزیہ میں وہ تمام عوامل زیر بحث آنے چاہئیں جو اس میں شامل ہوں۔حکومت ان میں ایک حصہ ہے۔دوسرے شعبوں کا جائزہ لیتے وقت متعدددیگر امور پر توجہ دینا ہو گی۔ مثال کے طور پر دیہاتی معاشرہ میں گورننس کا ذکر کرتے وقت یا تجزیہ کرتے وقت ان عوامل کو پیش نظر رکھنا ہو گا جو دیہاتی زندگی کا رُخ متعین کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ان میں بااثر زمیندار ہو سکتے ہیں، کاشتکار تنظیمیں ہو سکتی ہیں،امداد باہمی کی تنطیمیں، نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز، ریسرچ کرنے والے ادارے، مذہبی یا دینی قائدین، مالیاتی ادارے، سیاسی جماعتیں وغیرہ سب ہی شامل ہو جاتی ہیں اور یہ سب مل کر دیہاتی زندگی کا رُخ متعین کرتی ہیں ۔ شہری زندگی میں زیادہ دشواریاں اور پیچیدگیاں شامل ہو جاتی ہیں،قومی سطح پر لوبئسٹ (Lobyist) میڈیا، امداد فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے اور Multinational Corporations فیصلہ سازی اور ان پر عمل درآمد کے عمل پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
حکومت اور فوج کے علاوہ دیگر تمام کرداروں کو مجموعی طور پر سول سوسائٹی کا نام دیا جاتا ہے۔گویا کہ سول سوسائٹی گورننس کا رُخ اور معیار متعین کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔کچھ ممالک میں جرائم پیشہ لوگوں کے سینڈیکیٹ بھی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں اور اس طرح وہ بھی فیصلہ سازی اور ان پر عمل در آمدمیں اثر انداز ہوتے ہیں۔یہ لوگ شہری مراکز اور قومی سطح کے فیصلوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
فیصلہ سازی میں ایک تو رسمی ادارے (Formal Structure) یہ کام سر انجام دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ غیر رسمی ادارے بھی ہوتے ہیں جو یہ کام سر انجام دیں،جیسے کچن کیبنٹ یا غیر رسمی مشیر،شہری علاقوں میںمنظم کرائم سینڈیکیٹ جیسے لینڈ مافیا وغیرہ ایسے ادارے ہیں جو فیصلہ سازی پر اثر اندازہوتے ہیں۔یہ غیر رسمی کردار یا تو کرپشن کی وجہ سے معرض وجود میں آتے ہیں یا پھر ان کی وجہ سے کرپشن فروغ پاتی ہے۔یوں توہمارے قریب قریب ہر بڑے شہر میں لینڈ مافیا موجود ہے لیکن کراچی اور لاہور میں انکا وجود اور اس سے پیدا ہونے والے مضر اثرات شہری زندگی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔
گڈ گورننس کے اجزائے ترکیبی میں آٹھ عوامل شامل ہیں۔
-1 پہلے تو یہ کہ اس میں stake holders کی شراکت ہوتی ہے۔ گویاکہ فیصلہ سازی میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو ان سے متاثر ہوں گے۔
-2 دوسرے یہ کہ عمومی اتفاق رائے کا حصول اس کا مطمع نظر ہو۔
-3گڈ گورننس (stake holders) کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔
-4 یہ (Transparency) شفاف اور کھلے طریقے سے کام کرتی ہے۔
-5 لوگوں کی تکالیف اور ضروریات کا احساس کر کے انہیں دور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
-6 موثر ، متعین اور انصاف پر مبنی ہوتی ہے اور قانون پر سختی سے عمل پیرا۔
-7 اس میں کوشش کی جاتی ہے کہ کرپشن کو کم از کم رکھا جائے، اقلیت کی آراء کو بھی فیصلہ سازی میں جگہ دی جائے۔
-8 معاشرہ میں سب سے کمزور طبقات کی آواز کو سنا جائے اور اسے فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے۔ گڈ گورننس میں سوسائٹی کی موجودہ اور مستقبل کی ضروریات کا پورا پورا خیال رکھا جائے۔
گڈ گورننس میں مرد اور خواتین برابر کی حصہ دار ہوتی ہیں اور یہی اس پروسس کا ایک اہم پہلو ہے۔شراکت براہِ راست بھی ہو سکتی ہے یا حقیقی نمایندہ اداروں اور نمائندگان کے ذریعے۔ یہاں یہ تذکرہ مناسب معلعوم ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ جمہوری نظام میں معاشرہ کے نحیف اور کمزور طبقات کی آواز سننے اور اسے فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے۔شراکت منظم ، مربوط اور معلومات پر مبنی ہونی چاہیے۔اس کے لئے ایک طرف تو آزادی اظہار کی ضرورت ہے اور دوسری طرف ایک منظم اور مربوط سول سوسائٹی کی، جو آزادی کے ساتھ اجتماعی طور پر اپنی ضروریات اور تکالیف بیان کر سکیں۔ اس طرح گڈ گورننس کوپنپنے اور فروغ پانے کے لئے قانون کی عمل داری بھی ناگزیر ہے۔ قوانین انصاف پر مبنی ہوں اور غیر جانبدارانہ طریق سے ان پر عمل درآمد ہو۔انسانی حقوق کا پورا پورا تحفظ بھی اس کی ایک بنیادی ضرورت ہے بالخصوص ان طبقات کے حقوق جو معاشرہ میں اقلیت میں ہوں۔قوانین کی غیر جانبدارانہ عمل درآمد کے واسطے آزادعدلیہ اور غیر جانبدار پولیس فورس کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسی پولیس فورس جو کرپشن سے پاک صاف ستھری ہو۔
فیصلہ سازی اور ان پر عمل در آمد قاعدے قانون کے مطابق ہونا چاہیے اور اس بات کا اہتمام بھی ہو کہ لوگ جو ان فیصلوں سے متاثرہونے جا رہے ہیں آزادی اور آسانی سے ان کے متعلق تمام معلومات حاصل کر سکیں۔اس کے علاوہ گڈ گورننس کا یہ بھی تقاضا ہے کہ تمام شراکت داروں کو ان کے اثرات سے آگاہ کر سکیں۔معاشرہ میں متعدد نظریات اور ان نظریات کے حامل خواتین و حضرات ہر وقت موجود رہتے ہیں۔گڈ گورننس ان مختلف اور بسا اوقات متضاد نظریات میں ایک طرح کی ہم آہنگی اور تال میل پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ ایسی صورت حال ہو اور ماحول پیدا کیا جا سکے جو سوسائٹی کے بہترین مفاد میں ہو۔اس کے لئے ضروری ہوتا ہے ایک وسیع البنیاد نظریہ جو معاشرہ میں ترقی کے عمل کو جاری رکھنے کی ضمانت بن سکے۔اور کس طرح ایسی ترقی کے مقاصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ کسی بھی سوسائٹی کے تاریخی ، ثقافتی ، سماجی پس منظر سے مکمل آگہی کے بغیر ممکن نہیں۔
کسی سوسائٹی کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ اس کے افراد محسوس کریں کہ وہ اس کا لازمی حصہ ہیں اور وہ خود کو سوسائٹی کے دھارے سے باہر محسوس نہ کریں۔یہ بات سوسائٹی میں موجود طبقات بالخصوص کمزور طبقات کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے حالات بہتر بنا سکیں۔ گڈ گورننس سے مراد ایسے ادارے اور طریق کار ہیں جو کسی معاشرہ میں دستیاب وسائل کا ایسے استعمال کریں کہ اس سے سوسائٹی کی ضروریات پوری ہو سکیں۔
احتساب گڈ گورننس کی بنیادی ضرورت ہے۔حکومت اور سرکاری ادارے ہی نہیںپرائیویٹ سیکٹر اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی عوام کے سامنے جواب دہ ہونا چاہئیں۔ بالعموم کہا جا سکتا ہے کہ ادارہ ان لوگوں کے سامنے جوابدہ ہے جو اس کے فیصلوں سے متاثر ہوتے ہیں۔احتساب قاعدہ قانون پر عمل درآمد اور شفاف اقدامات کے بغیرممکن نہیں۔
بات مختصر کرنا مقصود تھا لیکن کورننس اور گڈ گورننس کی تعریف اور اس کے اجزائے ترکیبی کی وضاحت کے بغیر بات ادھوری رہتی۔ اس مقالہ کے بعد قارئین کو اندازہ ہو جائے گاکہ ہم پاکستانی ابھی گڈ گورننس سے کتنی دور ہیں۔ہمارے یہاں فیصلے بالعموم افراد کرتے ہیں جن لوگوں پر ان فیصلوں کا اثر ہوتا ہے یا جو لوگ ان سے متاثر ہوتے ہیں ان سے مشاورت شاذو نادر ہی ہوتی ہے۔ قاعدے قانون کا کوئی لحاظ رکھا جاتا ہے نہ فیصلے عوام کی ضروریات اور مطالبات سے مطابقت رکھتے ہیں۔سیاسی جماعتیں بھی بنیادی طور پر غیر جمہوری ہیں اور اپنے قائدین کی جیب کا زیور ہیں۔قائدین فیصلہ کرتے وقت فلاح عامہ کا نہیں ذاتی مفاد کا زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ سول سوسائٹی ہمارے ملک میں وسیع پیمانے پر ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکی اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کا دم خم پیدا ہو سکا ہے۔عدلیہ کی بحالی ایک ایسا موقعہ تھا جس پر سول سوسائٹی نے اپنا آپ منوایا۔ لیکن ابھی \\\"مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں\\\"۔اللہ کرے ہمارے ملک میں سول سوسائٹی پنپے اور متعلقہ شعبے اس قدر توانا ہو جائیں کہ وہ فیصلے عوام کی ضروریات اور امنگوںکے مطابق کروانے کا گُر سیکھ لیں۔فیصلے جن میں سرکار ی اور غیر سرکاری شعبہ دونوں شامل ہیں۔ جیسا پہلے عرض کیا گیا ابھی ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ گڈ گورننس تو غالباً دور کی بات ہے ابھی تو عوام کو گورننس تک کااحساس نہیں۔ہر آنے والا حکمران عمارت نو تعمیر کرنے میں محو ، اور جو کام اس سے پہلے مکمل ہو چکا ہو اس میں طرح طرح کے کیڑے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتا ہے۔
سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کے فقدان کے سبب اقتدار حاصل کرنے والی جماعت کے افراد بھی اقتدار میں آنے سے پہلے کئے گئے فیصلوں ، جاری کردہ پالیسیوں، یہاں تک کہ مکمل شدہ منصوبہ جات تک کو تباہ کر دینا اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں، اور کم و بیش کبھی بھی ان فیصلوں میں ان لوگوں کی رائے نہیں لی جاتی جو براہ راست ان سے متاثر ہوں۔یہ سب کچھ گڈ گورننس کے نام پر کیا جاتا ہے لیکن گڈ گورننس سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔