بدھ ‘ 1441 ھ‘ 22؍جولائی 2020ء
فواد چودھری نے اپوزیشن آل پارٹیز کانفرنس کوحلوہ پارٹی قرار دیدیا
فواد چودھری جیسے باغ و بہار، دل بہار لوگ خال خال ہی میسر آتے ہیں۔ سیاسی جماعتوںمیں ان کا وجود بادبہاری کی طرح ہوتا ہے، یہ لوگ طرح طرح کے نت نئے منصوبے بھی بناتے ہیں اور اپنے اچھوتے خیالات سے، لطائف سے لوگوں کا دل بھی بہلاتے ہیں۔ جان بوجھ کر بھی اپنوں کو چھیڑتے نظر آتے ہیں تو کبھی بیگانوں کا قافیہ تنگ کرتے پھرتے ہیں۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی آج کل ان کے پاس ہے، جس کی بدولت وہ اپنے سائنسی فارمولوں سے بھی نئی ایجادات کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔ کبھی رویت ہلال کے مقابلے میں اپنا چاند چڑھاتے ہیں، انہی کی بدولت اس سال عیدالفطر پورے ملک میں ایک ہی روز منائی گئی۔ بطور سیاستدان اور وزیر وہ اپنی حکومت کی حمایت کیلئے ہمہ وقت ناصرف تیار رہتے ہیں بلکہ حکومت کے مخالفین پر تابڑ توڑ حملے بھی کرتے ہیں۔ شرافت اور بزلہ سنجی بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے، اس لئے جب وہ مزاحیہ نشتر چلاتے ہیں تو اپوزیشن تلملا اٹھتی ہے۔ آج کل اپوزیشن جماعت مل بیٹھ کر حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے جسے حکمران سازش کہتے ہیں۔ اپوزیشن تمام پارٹیوں کو متحدہ کرنے کیلئے ایک کانفرنس بلا رہی ہے۔ فواد چودھری نے حکومت مخالف اس کانفرنس کو حلوہ پارٹی کہہ کر ان کا تمسخر اڑایا ہے، جس پر اپوزیشن جماعتوں کا طیش میں آنا فطری امر ہے۔ اب وہ حلوہ پارٹی کے جواب میں دیکھیں کونسی پارٹی کا نام دے کر فواد جی کو لاجواب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چلیں اس بہانے لوگوں کو نت نئی پارٹیوں کا علم ہوگا۔
٭٭٭٭٭
لیڈی ڈاکو روحانی آستانے سے ایک کروڑ کے زیورات لے اڑی
کیا بات ہے اس واردات نے ان نام نہاد روحانی آستانوں کا وہ چہرہ بے نقاب کر دیا جس پر نام نہاد روحانی تقدس کا پردہ پڑا رہتا ہے۔ روحانی آستانے غریبوں، بے کسوں ، بے سہارا لوگوں کیلئے پناہ گاہ ہوتے ہیں۔ ساری آمدنی لنگر اور غرباء کی امداد پر خرچ ہوتی ہے، صوفیاء جب شام کو اٹھتے تھے تو ساری خانقاہ میں جھاڑو دیتے اور شکر ادا کرتے کہ کچھ نہیں بچا، جو آیا راہ خدا میں لٹا دیا۔ اب یہ آج کل کے کئی آستانے حقیقی نہیں۔ نام نہاد قسم کے آستانے دیکھ لیں، یہاں جو مال و زر آتا ہے، خرچ کرنے کی بجائے اسے ذاتی استعمال کیلئے یہ جعلی عامل اور صوفی جمع کرتے ہیں۔ اس نذرونیاز سے جو غریبوں پر خرچ کرنے کیلئے ہوتی ہے اپنی عیاشیوں، نام و نمود اور عالیشان زندگی پر خرچ کرتے ہیں۔ جس آستانے پر اس لیڈی پھولن ڈاکو نے ساتھیوں کی مدد سے واردات کی، وہ کوئی عظیم الشان یا عالیشان نہیں تھا، عام دیہی غریبوں کی بستی میںتھا، جس میں غریب غرباء ہی نذرونیاز چڑھاتے تھے۔ جب وہاںسے اس کامیاب واردات میں ایک کروڑ کے زیورات کا خزانہ ڈاکوئوں کے ہاتھ آیا تو پوش علاقوں میں قائم ان جعلی آستانوں میں کتنا خزانہ دبا ہوگا۔ اب کہیں اس خبر کی تشہیر سے دوسرے مردوخواتین ڈاکو گینگوں کی نظریں اور جعلی پیروں کے آستانوں کی طرف نہ اٹھنے لگیں، اس طرح کئی خزانوں کا سراغ مل جائے گا مگر لٹنے کے بعد۔
٭٭٭٭٭
عید سے قبل سبزی فروش عوام کو ذبح کرنے لگے
جب ٹماٹر ، پیاز ، ادرک ، لہسن ، ڈبل سنچریاں بنانے لگیں تو عوام کے پاس سوائے کلین بولڈ ہونے کے اور کوئی راستہ بچتا ہی نہیں۔ پوری ٹیم بنا کھاتے کھولے زیرو پر ہی واپس پویلین کی راہ دیکھتی ہے۔ ہر سال یہی کچھ ہوتا ہے۔ چند روز شور شرابا ہوتا ہے مگر پھر وہی زمانے کی بے ڈھنگی چال والا معاملہ ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ لوگ تو اب چھوٹی عید ہو یا بڑی عید پر مہنگائی کے ہاتھوں پٹنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ کسی پر ان کی آہ و زاری کااثر نہیں ہوتا۔ عام معمولی سبزی بھی عید آنے پر سونے کے بھائو بکتی ہے۔ سبزی فروش دونوں ہاتھوں سے لوگوں کی جیب صاف کرتے ہیں۔ سیانوں نے سچ کہا تھا بندر کیا جانے ادرک کا مزہ۔ اسی طرح یہ منہ اور مسور کی دال وغیرہ ۔ ان محاوروں کا اب موجودہ دور میں مطلب لوگوں کو واقعی سمجھ میں آنے لگا ہے۔ اب تو ریٹ ہیں کہ ’’ایک لہسن کی پوتھی اور یہ بھوتی کا نیا محاورہ کہنے کو جی چاہتا ہے۔ اجرک بیچ کر بھی ایک چھٹانک ادرک خریدی نہیں جا سکتی۔ ٹماٹر کے دام سن کر تو اپنا منہ طمانچے مار مار کر لال کرنے کو جی چاہتا ہے۔ گاجر اور مولی کی جگہ اپنی انگلیاں چبانے کو دل کرتا ہے۔ سچ کہیں تو پیاز کی جگہ جگر تلنا زیادہ مناسب لگتا ہے کوئی ادارہ ہے جو ان گراں فروشوں کو نکیل ڈال سکے۔ سرکاری ریٹ پر سبزیوں کی فروخت ممکن بناسکے۔
٭٭٭٭٭
ایران نے جنرل قاسم کی مخبری کرنے والوں کو سزائے موت دیدی
یہ ہوتا ہے بروقت اور درست فیصلہ غداروں کا مخبروں کا یہی انجام ہونا چاہئے۔ چنگیز خان ، ہلاکوں خان بھی غداری کرنے والوں کو اسی انجام سے دو چار کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ان کو معاف کرنا سانپ کو دودھ پلانے کے مترادف ہے۔ ایران کی حکومت بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ کوئی بھی ملک اپنے غدار کو غیر ملکی مخبر کو زندہ چھوڑنے کا رسک نہیں لیتا۔ ہمارے ہاں البتہ ریٹ پالیسی چلتی ہے۔ ہم ناصرف غداروں کو جینے رہنے کا حق دیتے ہیں بلکہ ان کی خاطر مدارت اور حفاظت بھی نہایت اہتمام سے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں غداروں اور مخبروں کی کمی نہیں۔ یہ وہ نمک حرام ٹولہ ہے جو ہمارا کھا کر ہماری جڑوں کو ہی کمزور کر رہا ہے۔ ہم ہیں کہ ان کوسزا دینے کی بجائے ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے ہیں۔ یہ عجب رحم دلی ہے۔ کیا کوئی باہوش شخص یا قوم ایسا کرنے کی حماقت کر سکتی ہے۔ بار بار ڈسنے کے باوجود ہم سانپوںکو دودھ پلاتے ہیں۔ ان کو پالتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے سانپوں کا سر کچلا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی اگر پھانسی یا سرقلم کرنے کی روایت پر عمل ہو جائے تو یہ غدار اور غیر ملکی ایجنٹ یا تو موت کا شکار ہوں گے یا توبہ تائب ہو جائیں گے۔ انہیں سزا کا خوف ہی راہ راست پر لا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭