انتخابات ، جمہوریت اور عوام کی طاقت
25 جولائی کی انتخابی مہم میں شیر کی دھاڑ ،بلے کی مار اور تیر کے نشانوں کی گونج سنائی دیتی رہی ۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کے اتحاد بھی انتخابات میں پیش پیش رہے۔سب ہی نے اپنی عوامی رابطہ مہم میں اپنے اپنے منشور سامنے رکھے۔انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو موجودہ چیلنجز سے نجات دلا سکتے ہیں۔بہرحال تمام مشکلات رکاوٹوں اور اختلافات کو عبور کرتے ہوئے آخر کار وہ دن آنے ہی والا ہے کہ جس روز ملک کے دس کروڑ سے زیادہ عوام پھر ایک مرتبہ ووٹ ڈال کر اس بات پر مہر لگائیں گے کہ وہ جمہوریت پر غیر متزلزل یقین رکھتے ہیں۔وہ یہ چاہتے ہیں کہ حکمرانی کے اختیارات ان کی مرضی کے مطابق ،ان کے منتخب نمائندوں کے پاس آئیں۔کسی بھی جمہوری ملک کے لیئے یہ بات اتنی اہم نہیں کہ کون سی پارٹی یا کون سا لیڈر اختیار میں آتا ہے۔اس کے لیئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ جمہوری نظام کا تسلسل برقرار رہے اور اقتدار اعلی عوام کے پاس رہے۔کہا جاتا ہے بلکہ یہ بات اب مستند ہے کہ دنیا میں اب تک رائج سب سے بہتر ملک چلانے کے نظاموں میں جمہوری طریقہ کار سب سے بہتر ہے۔ وہ ملک جنہوں نے یہ نظام نہیں اپنایا جہاں لوگوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں وہ بھی کسی نہ کسی طور یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ان کے حکمرانوں کو عوام میں قبولیت حاصل ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی تاریخ بڑی ہی کٹی پٹی ہے۔ ملک بنا تو بابائے قوم نے واضح طور پر بار بار کہا کہ ملکی نظام جمہوریت ہوگا۔ لیکن افسوس کہ ان کے ارشادات کو جس قدر احترام سے بیان کیا جاتا ہے۔اس معاملے میں اس پر عمل بہت ہی کمزور نظر آتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر چالیس برس تک کیوں عوام اپنے حکمرانوں کو منتخب کرنے میں آزاد نہ تھے ؟۔ یہ اذ یت ناک دور بھی دیکھا گیا کہ 1970 کے انتخابات میں تقسیم ایسی پیدا ہوئی کہ ملک دو لخت ہوگیا۔ اس کی بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل نہ ہوسکا۔ اب 2018 میں پھر ایک مرتبہ عوام کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھیں۔ خوش قسمتی سے متنازع امور کے باوجود یہ مسلسل تیسری مرتبہ ہوگا کہ لوگ اپنے حکمرانوں کو منتخب کریں گے۔جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کے لیئے انتخابات کا یہ طریقہ کار کتنا ضروری ہے اس پر جتنا بھی اصر ار کیا جائے وہ کم ہوگا۔کیونکہ بلا شک و شبہ 25 جولائی جیسے دن ،،جب عوام ووٹ ڈالتے ہیں ،،کسی بھی ملک کے لیئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہی بات اس مرتبہ کے لیئے بھی ہے۔ ساڑھے دس کروڑ عوام کا ووٹ ڈالنا کوئی معمولی بات نہیں۔ دنیا بھر کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں۔ اس میں جو ایک اور بات جو اہمیت اختیار کرجاتی ہے وہ یہ ہے کہ آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ وہ نہ صرف خود یہ سارا انتخابی مرحلہ دیکھ رہے ہیں ،بلکہ اس کا حصہ بھی نظر آتے ہیں کیونکہ ان میں سے ایک بڑی تعداد ووٹ بھی ڈالے گی۔جن لوگوں پر یہ الیکشن کرانے کی ذمہ داری قوم نے سونپی ہے ،انہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیئے کہ اگر انتخابات میں شفافیت کا عمل نہ نظر آیا تو اس کے اثرات صرف اس الیکشن تک محدود نہیں رہیں گے اسے وہ نوجوان قوم دیکھ بھی لے گی اور سمجھ بھی لے گی جنہوں نے آئندہ نہ معلوم کتنے عشروں تک اپنی جمہوری قوت کا مظاہرہ ووٹ کے ذریعے کرنا ہے۔انتخابات کے عمل کے دو حصے ہیں۔ایک یہ کہ سیاسی جماعتوں کا لوگوں تک پہنچنا اور لوگوں کا ان کو منتخب کرنا۔جبکہ دوسرا جو اہم ترین حصہ ہے وہ یہ ہے کہ جو نمائندے عوام اپنی حکومت چلانے کے لیئے منتخب کریں انہیں وہ طاقت اور وسائل بھی حاصل ہوں جس سے وہ اس ملک کو چلاسکیں۔ یہ چاہے وفاق کی حکومت ہو یا چاہے صوبوں کی حکومت ہو۔ آئندہ پانچ سال کے لیئے اس ملک کا دنیا میں کیا مقام ہونا ہے ؟، اس کی معیشت کس طرح چلے گی ؟۔ ملکوں سے اس کے تعلقات کیسے ہونگے۔ سب سے بڑھ کر ایک عام پاکستانی شہری کو عزت کے کس مقام پر فائز کیا جائے گا ؟۔ یہ سب انہی انتخابات سے طے ہوگا۔ظاہر ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام کو بہت سوچ سمجھ کے اپنا ووٹ ڈالنا ہوگا۔کیونکہ جتنی بڑی تعداد میں ووٹ کاسٹ کیئے جائیں گے اتنے ہی زیادہ ان انتخابات کی ساکھ مضبوط ہوگی۔ یہ اچھی خبر ہے کہ اس مرتبہ الیکشن کمیشن نے ووٹ ڈالنے کے وقت کو بڑھایا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ موقع مل سکے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کو اس وقت متعدد چلینجز کا سامنا ہے جیسے معاشی بد حالی، دہشت گردی ، خارجہ پالیسی اور معاشرے کی تقسیم۔اب یہ عوام کے ووٹ کی طاقت ہی حکومت کو وہ قوت فراہم کرسکتی ہے۔جس سے ان مسائل سے نبرد آزما ہوا جاسکتا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ لوگوں کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ ان قومی معاملات پر اپنی واضح رائے پیش کرسکیں۔ملکوں کو ادارے نہیں قوم بناتی اور سنوارتی ہے۔ چاہے کتنی ہی بڑی آزمائش کیوں نہ آجائے۔اگر قوم یکجا ہے اس میں اتحاد ہے اور اس میں یہ عزم موجود ہے کہ وہ ہر صورت میں اپنے ملک کو ایک عظیم مملکت بنائیں گے تو پھر ساری رکاوٹیں خود بہ خود ہٹتی چلی جاتی ہیں۔ جمہوری نظام کی یہی خوبصورتی ہے کہ وہ عوام کو ووٹ ڈالنے کا حق دے کر اسے اس طاقت سے لیس کردیتے ہیں۔جب قومیں پر عظم ہو کر کھڑی ہوجاتی ہیں تو پھر ترقی ، استحکام اور مضبوطی کوئی مشکل نہیں رہتی۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ 25 جولائی کو ملک کے عوام کو یہ جمہوری حق مل رہا ہے کہ وہ اپنے ملک کو ایک باوقار مملکت بناسکیں۔انہیں ہر صورت میں باہر نکلنا چاہیئے اور جمہوریت کے حق اور جمہوری نظام کے تسلسل کے لیئے ووٹ ڈالنا چاہیئے۔یہی وہ خواب تھا جو مفکر پاکستان نے دیکھا اور جس کی تکمیل کے لیئے بابائے قوم محمد علی جناح نے ایک لازوال جدوجہد کر کے پاکستان بنایا۔ آئیے ہم سب اپنی ذمہ داری پوری کریں اور بابائے قوم کی آرزو کی تکمیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔