کیا نواز شریف کی جرأت کام آئے گی
پاکستان پر تین مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان رہنے والے میاں محمد نواز شریف نیب عدالت کے فیصلے کے بعد لندن سے کراچی آکر سزا بھگتنے کیلئے اڈیالہ جیل میں قیام پذیر ہیں ان کے علاوہ ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر بھی جیل میں سزا کاٹ رہے ہیں ۔ نواز شریف کے صاحبزادے نے لندن سے اپنے بیان میں گلہ کیا ہے کہ ان کے والد میاں نواز شریف کو جیل میں فرش پر سونا پڑا ان کو بستر بھی فراہم نہیں کیا گیا نیز بیت الخلاء انتہائی گندہ ہے نیز رات کو مچھروں نے کاٹ کاٹ کر نواز شریف کو سخت اذیت میں مبتلا رکھا ۔ خیر یہ تو حقیقت ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز نے عدالت کی جانب سے سزا دیئے جانے کے بعد لندن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ جلد (جمعہ ) پاکستان آکر حالات کا مقابلہ کریں گے ۔ انہوں نے اپنے کارکنوں اور چاہنے والوں سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ اس غیر منصفانہ عدالتی فیصلے کے خلاف سڑکوں پر آئیں اور ووٹ کو عزت دلانے کی جدوجہد میں میرے شریک سفر بن جائیں ۔ نواز شریف اعلان کے مطابق پاکستان واپس آئے اور اس سلسلے میں نگراں حکومت نے لاہور شہر میں سخت حفاظتی انتظامات کئے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کردیں تاکہ شہباز شریف ریلی کے ہمراہ ایئرپورٹ نہ جائیں ۔ ایئرپورٹ پر لاہور اور اسلام آباد میں بھی غیر معمولی اقدامات کئے گئے ۔ ایئرپورٹ سے جیل منتقل کرنے کیلئے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے جہاز تیار رکھے گئے ۔ لاہور میں اس قدر سخت انتظامات کئے گئے تھے کہ دنیا بھر کی میڈیا کی جانب اسی جانب توجہ مبذول ہوگئی اور حیرت کا اظہار کیا جارہا تھا کہ آخر ایک شخص خود سزا بھگتنے کیلئے اپنے وطن واپس آرہا ہے بھاگ نہیں رہا پھر آخر اسقدر سکیورٹی کیوں لگائی جارہی ہے پورے لاہور شہر جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں ۔ عام رائے یہ ہے کہ اس قسم کے انتظامات کی کوئی ضرورت نہیں ۔ مریم نواز نے بھی جیل جانا پسند کیا اور پہلے روز نواز شریف اور مریم نواز کو عام قیدیوں سے بھی بدتر حالت میں رکھا گیا ۔ مریم نے بی کلاس کی سہولتیں لینے سے انکار کردیا اور جیل میں تعلیم دینے کی خدمات دینے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ میاں نواز شریف اپنے دور میں مطلق العنان حکمران بن گئے تھے ۔ حتیٰ کہ پہلی مرتبہ ان کے ساتھ سزا کاٹنے والوں ، اذیتیں برداشت کرنے والوں کو بھلا بیٹھے تھے ۔ کراچی کی لانڈھی جیل میں ان سے ملانے کیلئے بیگم کلثوم نواز کو خود لیکر جاتے تھے اور کافی مقدار نوازشریف کی پسند کے کھانے لیکر جاتے تھے ۔ کیپٹن حلیم صدیقی اور میاں اعجاز شفیع کی اس قسم کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی طرح جیل کے ساتھی جسٹس (ر) سید غو ث علی شاہ ، بڑھاپے اور بیماری کے باوجود حکومت کی جانب سے ترغیبات دینے کو مسترد کرتے ہوئے سخت سردی میں سزا بھگت رہے تھے اور نواز شریف سے زیادہ جیل کی صعوبتیں سید غوث علی شاہ نے بھگتی تھیں ۔ میں اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کرونگا کہ شاہد خاقان عباسی بھی جیل میں تھے تو جب وہ کراچی میں جیل سے رہا ہوئے تو کیپٹن حلیم صدیقی ان کو لینے خود جیل گئے اور وہاں سے سیدھے اپنے گھر لے آئے ۔ میں بھی اطلاع ملنے پر وہاں پہنچ گیا اس موقع پر شاہد خاقان عباسی نے کیپٹن حلیم صدیقی سے کہا شاہ صاحب (سید غوث علی شاہ ) جیل میں سخت اذیت میں بیمار ہیں ۔ ان کو جیل کی صعوبتوں سے نجات دلانے کیلئے کچھ کیا جائے ۔ یہ ہی بات میاں اعجاز شفیع کی رہائشگاہ پریس کانفرنس کرنے کے بعد مخدوم جاوید ہاشمی نے بھی غوث علی شاہ کی طبیعت اور عمر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ غوث علی شاہ کو جلد سے جلد جیل سے نجات دلائی جائے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میاں نوازشریف نے جیل کہلوایا ہے کہ شاہ صاحب کو جیل سے باہر لانے کی تدبیر کی جائے ۔ قارئین انداز ، اس میں کہ جب غوث علی شاہ کو علالت کے باعث جیل سے باہر لا کر عدالتی حکم پر ہسپتال میں رکھا گیا اور کچھ اس وقت کے سندھ اسمبلی کے MPA ہاسپیٹل میں لایا گیا تو ان کو بھی راتوں کو ننگے فرش پر بغیر بستر کے گزارنے پڑے اور پھر بیماری کے باعث ان کو سرکاری ہسپتال میں منتقل کیا گیا اور ا علیٰ سطح کے متعدد مسلم لیگیوں نے جیل کی سختیاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کیلئے برداشت کیں لیکن نواز شریف کا المیہ یہ رہا کہ جب وہ اقتدار میں آتے تھے اپنی ایک مخصوص کچن کابینہ بنالیتے تھے ، کابینہ کو بھی نظر انداز کرتے تھے اور اس کو اپنا غلام اور صرف دستخط کرنے والوا ادارہ سمجھتے تھے حتیٰ کہ جب عمران خان نے ان کے خلاف طویل ترین دھرنا دیا اور مقبول مسلم لیگیوں کے کہ عمران خان کو فوج کے بعض اعلیٰ افسران کی حمایت حاصل تھی اس کے باوجود قومی اسمبلی نے یک زبان ہو کر اور ان کی مخالف جماعت پیپلز پارٹی نے بھی نواز شریف کی غیر مشروط حمابت کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ بھر پور طریقے فرینڈر اپوزیشن سے بڑھ کر صرف فرینڈلی ثبوت دیا اور پوری پارلیمنٹ نواز شریف کی حمایت میں آہنی دیوار بن کر نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے تحفظ کیلئے کھڑی ہوگئی لیکن جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ناکام ہو گئے نواز شریف کی وزارت عظمیٰ بچ گئی تو نواز شریف پھر پارلیمنٹ حتیٰ کہ مسلم لیگیوں سے بھی دور ہوگئے اور سارا کاروبار حکومت ایسے کرپٹ سمدھی اسحق ڈار کے سپرد کر کے صرف بیرونی ممالک دورے کرنے میں مصروف ہوگئے مخلص دوستوں مسلم لیگی ارکان پارلیمنٹ حتیٰ کہ اپنی کابینہ سے بھی دور ہوتے گئے جس کا نتیجہ اب ان کو مل رہا ہے کہ اب ان کی حمایت میں لیگیوں میں جوش و جذبہ کا فقدان ہے وہی چند لوگ نظر آرہے ہیں ۔ مشاہد اللہ خان ، اور لوگ سرگرم نظر آتے ہیں ۔ مشاہد اللہ خان ہی وہ شخص ہیں جب جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تھا تو مشاہد اللہ خان ہی وہ ملک بھر میں پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کراچی پریس کلب پر مظاہرہ کیا تھا اور ان کو ساتھیوں سمیت گرفتارکرلیا گیا تھا ۔ خیر یہ تو سیاسی معاملات اور شعور کا امتحان ایسے حالات ہوتے ہیں ۔ اب دیکھتا یہ ہے کہ نواز شریف اپنی جارحانہ حکمت عملی پر عمل پیرا رہتے ہیں یا اپنے بھائی میاں شہباز شریف کی مصلحت پر مبنی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں ۔ لیکن اس راہ میں مریم نواز حائل ہیں ۔ بہر حال یہ نوازشریف ہی کیلئے نہیں ملک کیلئے حالات بہت خراب ہیں ۔ تین دنوں میں دھماکوں میں سینکڑوں معصوم لوگ شہید کردیئے گئے ۔ آگے بھی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے اللہ خیر کرے ۔