۲۵ جولائی اور سوچ پاکستان
اور ایکبار پھر پاکستان کی تاریخ ایک نازک مرحلے پر کھڑی ہے،پچیس جولائی کا دن کوئی عام دن نہیں یہ ہماری نسلوں کے مستقبل کا دن ہے۔۔۔یہ پاکستان کے مستقبل کے تعین کا دن ہے۔آج کا فیصلہ ہمارا کل بنے گا ۔ آج ہمارے سامنے کئی ایسی سیاسی اور دینی پارٹیاں ہیں جو الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں ۔۔۔ ان میں ایسے چہرے بھی ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں سے بار بار ملک پر حکمرانی کرنے کے باوجود عوام کی تقدیر نہ بدل سکے ۔۔۔اگر بدل سکے تو اپنی اور اپنی آنے والی سات نسلوں کی تقدیر بدل کر رکھدی۔ کسی کے برطانیہ میں اربوں روپے کی مالیت سے خریدے گئے قیمتی فلیٹ ہیں تو کسی کی دبئی میں بلندو بالا عمارتیں کھڑی عوام پر ہنس رہی ہیں کہ دیکھ لو یہ تمہارا ہی پیسہ ہے اور اس کو لُوٹنے کا اختیار بھی تم نے ہی ہمیں دیا تھا ۔ وقت ایک سا نہیں رہتا ۔۔آج پھر اختیار اُسی عوام کے پاس آیا ہے جس کے جذبات کو کچلا گیا اور اُسے مہنگائی کی دلدل میں دھکیلنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی قرضے کی زنجیر میں بھی باندھ دیا گیا کہ آنے والی سات پشتیں بھی اس زنجیر کی قید سے آزاد ہو کر خوشحال نہیں ہو سکتیں ۔۔ اب صرف ایک ہی راستہ ہے عوام کے پاس کے وہ کسی ذات پات کے چکر میں نہ پھنسیں اور نہ ہی کسی برادری اور جرگے کے آگے سر جھکائیں کیونکہ آج ایک ایک پاکستانی کا سر شرم سے جھکا ہوا ہے تین بار کا وزیر اعظم نااہل ہو کر جیل جا چکا ہے اور ڈھٹائی اور بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ سب سے بڑی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے آگے سر جھکانے اور قوم سے اپنے کرتوتوں کی معافی مانگنے کے بجائے ان با عزت لوگوں کی توہین کر کے ووٹ کو عزت دینے کی بات کررہی ہے اس کی جماعت کہ جس نے خود ووٹ اور ووٹر کو عزت دینے کے بجائے نوٹ کو عزت دینے کی پالیسی اپنائی اور خوب دھن دولت بنائی اور اس دھن دولت کا کوئی ثبوت نہ پیش کرسکے تو اپنے ہی باوقار اداروں او ر اُن باوقار ججز کی توہین پر لگ گئے کہ جو اُن کا کام اپنے ذمے لے کر کر رہے ہیں۔بھاشا اور ڈیامر ڈیمز سمیت تمام ڈیمز بنانے کی ذمہ داری کس کی تھی ۔۔۔۔ان ہی حکمرانوں کی جو گزشتہ تیس برسوں سے باریاں لے رہے ہیں ۔ کراچی میں مہاجر کارڈ کھیل کر تین دہائیوں میں عوام کو بے وقوف بنایا گیا اور اب بھی کان گھما کر بے وقوف بنانے کی تیاری وہی لوگ کر رہے ہیں جو پہلے بھی بے وقوف بنانے کے عمل میں شامل تھے۔۔۔سندھ میں جاگیرداری اور پنجاب میں وڈیرہ شاہی اور سیدھے سادھے دیہاتیوں کو پنجاب گردی کا شکار کرنے کی پھر سے مذموم کوششیں ہو رہی ہیں ۔ دوسری جانب مذہب کے نام پر ایکبار پھر سیاست کرنے کی ناکام کوششیں وہی لوگ کر رہے ہیں جن کے چہروں سے پردہ اُٹھ چکا ہے۔جو صرف اپنے ذاتی اور مدارس کے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں اور عوام کے مفادات سے انہیں بھی کوئی غرض نہیں۔آج سابقہ حکومت کے نااہل فیصلوں کے سبب ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اس نہج پر پہنچ گئے کہ ڈالر ایکدم اونچی اُڑان بھرتا ہوا ۱۳۰ روپے تک جا پہنچا ہے اور اس کا خمیازہ اندھی مہنگائی کی صورت میں بھگتنا عوام کو ہی ہے۔۔۔ تو کیا ایسی صورتحال میں ہم عوام کی یہ ذمہ داری نہیں کہ اپنی سوچ کا مرکز صرف اور صرف پاکستان رکھیں نہ کہ مہاجر’ناہی پنجابی،ناہی پختون یا سندھی اور بلوچی۔ یاد رکھیں کہ ہم سب کی بھلائی صرف اور صرف پاکستان کی بھلائی میں ہیں اور پاکستان کا مستقبل کبھی بھی آزمائے ہوئے ناکام بھارتی یا امریکی مہرے نہیں بدل سکتے اس کے لئے عوام کو ہی اپنے آپ کو اپنی سوچ کو بدل کر تبدیل لانا ہوگی اپنے لئے اپنی نسلوں کے لئے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے لئے۔یاد رکھیں۔’’ اگر آج ہم نے اپنی سوچ کا محور پاکستان نہیں رکھا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی‘‘۔کیا قائد اعظم نے پاکستان بنانے کی انتھک محنت اس لئے کی تھی کہ محض چند لٹیرے اس پر آنے والی نسلوں پر قابض ہوجائیں ۔۔یقینا یہ قائد اعظم کا وژن نہیں تھا اور آج ہمیں نا صرف قائد اعظم کے وژن والے پاکستان کی ضرورت ہے بلکہ اس کائنات کی سب سے معتبر ہستی ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ کی اس بات پر بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔۔ جبکہ ہم تو آزمائے ہوئے سوراخوں سے تین تین بار ڈسے جاچکے ہیں اور اس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت بھی رہی ہے ۔۔۔ تو آئیں ہم سب مل کر ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں اپنے ووٹ کے ذریعے پوری قوم کی تقدیر بدلنے کے لئے باہر نکلیں اور صرف سوچ پاکستان کے ساتھ ووٹ کا درست استعمال کرکے ۲۶ جولائی کے روشن سویرے کے استقبال کے لئے تیار ہوجائیں جو ہم پر برسوں سے چھائے ہوئے مہنگائی، مایوسی، بجلی،پانی اور کرپشن کے اندھیروں کو چیر کر ایک روشن پاکستان کی خوشخبری دے رہا ہو۔قرضوں کی دلدل میں دھنسے اس وقت میں اس سنہرے موقع کا فائدہ اُٹھائیں اور بدل دیں اپنی،اپنی نسلوں کی اور پاکستان کی تقدیر۔۔۔پاکستان زندہ باد۔