پلاسٹک آٹا
سوشل میڈیا پر "پلاسٹک آٹے" سے متعلق ویڈیوز رواں سال کے ابتدائی دنوں میں وائرل ہوئیں اور تین ماہ گزرنے کے باوجود٬ اب بھی اس نوعیت کی ویڈیوز اپ لوڈ کی جارہی ہیں٬ جنھیں لاکھوں افراد نہ صرف یہ کہ دیکھ رہے ہیں٬ بلکہ اپنا "فرض" سمجھتے ہوئے پورے جوش و خروش سے آگے بھی بڑھا رہے ہیں - مگر حقیقت کچھ اور ہے نیشنل میڈیکل سینٹر٬ کراچی کا کہنا ہے کہ"گندم٬ جو اور باجرے کے آٹے میں قدرتی طور پر گلوٹین موجود ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے روٹی میں نرمی آتی ہے- چوں کہ گلوٹین کھینچتی ہے اور اسے کھینچ کر بڑا بھی کیا جا سکتا، اس لیے لوگ اسے ربر سمجھنے لگے ہیں۔اس لچک دار گلوٹین سے آٹا گوندھنے،اس کا پیڑا بنانے اور پھر اسے روٹی کی شکل دینے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا سکتا ہے کہ ہمیں جب مکئی کی روٹی پکانی ہوتی ہے،تو اس کے آٹے میں تھوڑا گندم کا آٹا بھی شامل کرتے ہیں ،کیوں کہ مکئی میں گلوٹین کی کمی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اس کے آٹے میں لچک بھی نہیں ہوتی۔گلوٹین سے الرجی کی شکایت رکھنے والے افراد کے لیے مارکیٹ میں گلوٹین فری آٹا بھی دستیاب ہے۔اس ے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاملہ پلاسٹک یا کسی اور چیز کا نہیں،بلکہ گندم کا آٹا قدرتی طور پر ایسا ہی ہوتا ہے،لہذا، غذائی ماہرین،کاشت کاروں،مقامی اور عالمی اداروں اور فلورملز مالکان کی آرا کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آٹے میں پلاسٹک شامل کرنے کی باتیں محض افواہیں ہیں، جنھیں ہر گز سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔ سید دانیال علی شعبہ خردحیاتیات،فیڈرل اردو یونیورسٹی۔کراچی)