صرف چند روز میں پورے ملک میں 25 جولائی کا سیاسی دنگل ہونے کو ہے۔ موجودہ سیاسی گہماگہمی اور حالات کی گرمی اس وقت ہر شخص کیلئے دلچسپی کا باعث ہے۔ ہماری عوام میں دو دہائی کے عرصے میں سیاسی شعور پروان چڑھا ہے یا نہیں‘ تاہم لوگوں کے اندر سیاست میں دلچسپی لینے کا رجحان ضرور بڑھا ہے۔ ویسے بھی الیکشنز کے دنوں میں سیاسی گفتگو اور سیاسی سرگرمیاں عام ہو جایا کرتی ہیں۔ یوں تو معاملات سیاسی گفتگو اور سیاسی سرگرمیوں تک رہنے چاہئیں‘ مگر ہماری عوام کچھ جنونی اور دیوانی ثابت ہوئی ہے۔ کئی دیوانے مستانے اپنے لیڈران کے عشق میں مبتلا اپنی گفتگو بلکہ پارٹی فیور کی بحث میں گالی گلوچ اور مار دھاڑ سے گریز نہیں کرتے بلکہ بات تصادم تک آپہنچتی ہے۔ الیکشن کی مہم کے دوران اپنے جلسوں میں جمہوری انداز سے لوگوں کی شرکت یقینی بنانے اور اپنے منشور اور ملکی مسائل پر گفتگو کرکے لوگوں کو اپنی اہلیت و نیک نیتی پر قائل کرنے کی بجائے ہم نعروں‘ دھکم پیل‘ موسیقی و نغموں اور مخالفین پر الزام تراشیوں یہاں تک کہ گالی گلوچ‘ دھمکی‘ دھونس کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ووٹر بھی اپنی ضرورتوں کیلئے اس وقت کا خوب فائدہ اٹھانے کے موڈ میں ہے۔ طمع و لالچ یا ضرورت کچھ بھی ہے‘ اس وقت ووٹر اپنے لیڈر سے اپنی قیمت وصول کر رہا ہے۔ برادری ازم کو خوب ہوا دی جا رہی ہے۔ بادی النظر ایسے حالات ہمارے ملک کی بدقسمتی ہیں۔ جہاں خوف و دانش یا ہر جذبات و سطحی سوچیں فوقیت لے جا رہی ہوں وہاں کی سیاست اور حکومت کیا ہوگی؟ قصووار عوام ہیں تو قصور ہمارے لیڈرز کا بھی ہے۔ لیڈرز عوامی خوشی کو مقدم رکھتے ہیں کہ ان کا ووٹ بنک بنا رہے اور عوام کے اندر شعور و دانش کی گنجائش نہیں کہ انہیں دانستہ طورپر علم سے دور کھا گیا ہے۔ چنانچہ ثابت یہ ہو رہا ہے کہ جس جمہوریت کے نغمے گاتے اور جمہوری حکومتوں کے قیام کیلئے ہم ایسی ہی کوششیں کرتے ہیں۔ اس جمہوری طرزحکومت کا بنیادی ’’عنصر‘‘ شعور و آگہی یعنی تعلیم ہی غائب ہے۔ تو ہم ایسی ہی جمہوریت اور ایسی ہی سرگرموں کا تجربہ کریں گے‘ لیکن اگر گزشتہ 70 سالہ تاریخ پاکستان میں قائم حکومتوں نے تعلیم کی طرف توجہ دی ہوتی تو تعلیم یافتہ عوام کا ہمارا صرف 20% طبقہ خاموش بیٹھ جانے پر مجبور نہ ہوتا۔ یہ مجبور طبقہ نہ تو جلسوں میںشرکت کرتا ہے اور نہ ہی ریلیوں میں‘ نہ نعرے بازی کرتا ہے اور نہ نعروں سے متاثر ہوتا ہے اور یہی طبقہ ہے جوکہ عوامی حالت پر پریشان اور قومی لیڈران سے بیزار ہوکر کڑھتا اور ملک کی خیر مانگتا ہے۔ پڑھے لکھے‘ صاحب الرائے طبقے کا المیہ یہ ہے کہ یہ طبقہ اپنی رائے دہی کا حق استعمال نہیں کرتا اور اس طرح ان کے ووٹ کاسٹ نہ کرنے سے ہمیں کسی اچھے لیڈر کے انتخاب میں کوئی تعاون حاصل نہیں ہوتا۔ آزاد اور پڑھی لکھی رائے اس وقت ذات برادری و روپے پیسے کے زور کے موقع پر فیصلہ کن بھی ہو سکتی ہے۔ اس لئے میں سمجھتی ہوں کہ وطن عزیز کی خاطر ہمارے باشعور پڑھے لکھے طبقے کو اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے ضرور باہر نکلنا ہوگا۔ ملک میں اس وقت میں دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ قومی سطح پر حکومت بنانے کیلئے نیشنل اسمبلی کی سیٹوں پر زیادہ سخت مقابلے مشاہدہ میں آرہے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے مابین کانٹے دار مقابلے ہونگے۔ سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور پیپلزپارٹی آمنے سامنے ہیں۔ کے پی کے میں متحدہ مجلس عمل اور تحریک انصاف کا سخت مقابلہ رہے گا۔
ہر صوبے میں کسی ایک متعلقہ پارٹی کا زور نظر تو آرہا ہے‘ تاہم حتمی نتائج آنے تک کچھ بھی کہنا قبل از وقت اور محض قیاس آرائی ہوگا کیونکہ نتائج عمومی طورپر غیرمتوقع بھی ہوجاتے ہیں۔ برج الٹ بھی جاتے ہیں اور اقتدار کے خواب ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو ہمارے ملک کیلئے اچھے لیڈرز کی اشد ضرورت ہے۔ قومی مسائل کے حل کیلئے بے لوث قیادت کا ہونا اس وقت انتہائی اہم ہے تو ساتھ ساتھ ہمیں نظریاتی‘ انصاف پسند اور میرٹ پر ووٹ کاسٹ کرنے والا ووٹر بھی چاہئے۔ ایسا ووٹر کہ جو ملک پاک کی تقدیر ذمہ دار قائدین کے ہاتھ میں دے۔ الیکشنز کا فیئر ہونا بے حد ضروری ہے۔ موجودہ حالات کا اگر ہم ایک غیر جانبدار تجزیہ کریں تو اس وقت ہمیں وطن عزیز واقعی گوناگوں مسائل میں گھرا ہوا نظر آرہاہے۔ پانی و بجلی کی قلت‘ تعلیمی زبوں حالی‘ صحت عامہ کی سہولتوں کا فقدان‘ نان و مکان تک غریب کی مشکل میں بنیادی‘ عوامی معاملات ہی توجہ نہیں تو ہم عالمی برادری کاحصہ ہوتے ہوئے گلوبل ایشوز کو کس طرح سمیٹ سکیں گے حالانکہ شام‘ عراق‘ فلسطن اور لیبیا دیگر مسلم ممالک کے حالات کی کشیدگی میں پاکستان جیسے ایٹمی قوت والے مسلم ملک کا اپنا ایک رول بھی ڈیمانڈڈ ہے اور اسلامی دنیا کو جس طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے اور عیار و طرار دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں مستعد و پرامن رہنا ہے۔ اندرون امن بیرونی وقار و استعدا کا باعث ہے۔ برصغیر کے مسلمان خواہ وہ ہندوستان میں بستے ہیں یا پاکستان میں‘ یہ مسلمان کشمیری ہیں یا پہاڑی کوہساروں سے مضبوط ہیں اور اللہ کی حمایت و مدد سے شعائر اسلام کے بہترین محافظ ہیں۔ الحمداللہ۔
کیا ہماری قوم جانتی ہے کہ ارض پاکستان کو نعرہ تکبیر کی صدا بلند کرنے والے فرزندان توحید نے اپنے لہو سے سینچا ہے اور اس بار الیکشنز میں پوری قوم پر لازم ہے کہ غیر جانبدار اور منصفانہ اپنے قائدین کا چنائو کرکے اپنے آبائو کے پاک لہو سے وفا نبھائیں۔ ووٹ محض ووٹر کا حق رائے دہی ہی نہیں بلکہ قومی امانت بھی ہے۔ یعنی …ع
آج جو کچھ بوئے گا‘ کاٹے کا کل
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024