اسرائیل: یہودیوں کی قومی ریاست
اسرائیل کی پارلیمنٹ نے پچھلے دنوں ایک نیا بنیادی قانوں بنایا ہے جس کہ تحت اسرائیل کو یہودیوں کی قومی ریاست بنادیا گیا ہے۔ اسرائیل میں بنیادی قانون کو وہی حیثیت حاصل ہے جو عام طور پر آئین کو ہوتی ہے، گو یہ سادہ اکثریت سے منظور ہوتا ہے۔ اس قانون کے اہم ترین نکات مندرجہ ذیل ہیں: (1) ریاست کا دارالحکومت یروشلم(بیت المقدس) ہوگا۔ مکمل اور متحد؛ (2) ریاست کی سرکاری زبان عبرانی (Hebrew) ہوگی اور عربی کو خصوصی درجہ حاصل ہوگا؛ (3) ریاست کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ ریاست کے ان یہودی ارکان کے تحفظ کا اہتمام کرے جو اپنی یہودیت کیوجہ سے مشکلات کا شکار یا گرفتاری سے دوچار ہوں؛ (4) ریاست کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ غیر ممالک میں مقیم یہودیوں سے تعلقات استوار کرے تاکہ انکے اور ریاست کے درمیان محبت اور بھائی چارہ پیدا ہو؛ (5) یہ ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ غیر ممالک میں مقیم یہودیوںکی جان ومال ،ثقافتی، تاریخی اور مذہبی روایات کا تحفظ کرے؛ (6) ریاست یہودی آبادکاری کو ایک اہم قومی اثاثے کی حیثیت سے دیکھتی ہے اور انکی حوصلہ افرائی کریگی اور ان کی تعمیرات کو فروغ دیگی؛ (7) ریاست کا کیلنڈر عبرانی ہوگا جبکہ عیسوی کیلنڈر اسکے ساتھ استعمال ہوگا؛ (8) یوم آزادی ریاست کی چھٹی کا دن ہوگا اور دیگر یادگاری دن جو یہودیوں کی اسرائیلی جنگوں میں قربانیوں، ہالوکوسٹ اور ہیروز کی یاد کا دن سرکاری یادگار کے طور پر منائے جائینگے۔ (9) یوم سبت اور اسرائیل کے دیگر ایامِ فیسٹول آرام کے دن ہیں۔ غیر یہودیوں کو اپنے آرام کے دن مقرر کرنے کا حق ہے جو قانوں کے ذریعے نافذ کیے جائینگے۔
اس نئے قانون نے دنیا میں بے چینی کی لہر پیدا کردی ہے۔ یہ نسل پرست قانون ہے جو انسانی حقوق کی پامالی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اس پر کیے جانے والے اعتراضات کو سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ میں تقسیم فلسطین کے جس فارمولے کے تحت وجود میں آیا، وہ اسکے برعکس تمام فلسطین پر قابض ہوگیا ہے۔ 1948 کے فارمولے میں مغربی کنارہ اور غزہ پر مشتمل فلسطین اور شمال مغرب میں واقع علاقوں پر مشتمل اسرائیل جبکہ جافا کا علاقہ اسرائیل کے اندر عرب علاقہ اور یروشلم (القدس الشریف)کو بین الاقوامی نگراں انتظامیہ کے تحت غیرجانبدار علاقہ بننا تھا۔ لیکن یہ اتنی بڑی زیادتی اور ناانصافی تھی کہ فلسطینیوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا اور پہلی اسرائیل عرب جنگ چھڑ گئی جس بعد غزہ پر مصر ، مشرقی یروشلم پر اردن اور مغربی کنارے پر اسرائیل قابض ہوگیا۔ بعد ازاں 1967 میں دوسری اسرائیل عرب جنگ میں اسرائیل نے نہ صرف تمام فلسطین پر قبضہ کرلیا بلکہ اس نے شام اور مصر کے کچھ علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا۔ لہذا اقوام متحدہ کی قراداد کے برعکس فلسطین کی ریاست وجود میں نہیں آئی بلکہ اسرائیل کی مرضی منشا سے منظور ہونیوالی قرداد کے باوجود اسرائیل نے وہ علاقہ بھی ہتھیا لیا جو فلسطینیوں کو ملنا تھا۔ اس وقت سے اب تک اس کا قبضہ چلا آرہا ہے۔
متذکرہ قانون میں یروشلم کو دارالحکومت قرار دیا گیا ہے جو بین الاقوامی قانون کیخلاف ہے، کیونکہ وہ اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ 1980 میں ایک بنیادی قانون بنایا گیا تھا جس کے تحت یروشلم کو اسرائیل میں ضم کرکے اسے دارالحکومت قرار دے دیا تھا۔ یہ قانون کیونکہ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کےخلاف ہے جس میں یروشلم کو ایک بین الاقوامی نگرانی میں دیا جانا تھا، لہذا ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے، جو پاکستان نے پیش کی تھی ،سلامتی کونسل نے اس قانون کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ فی الفور اس قانون کو منسوخ کرے اور تمام ممبر ممالک سے مطالبہ کیا کہ اگر انہوں نے اپنے سفارت خانے وہاں کھولے ہیں تو فی الفور بند کرکے انہیں دیگر مقامات مثلاً تل ابیب وغیرہ منتقل کریں۔ امریکہ نے اس رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا۔ لیکن اس مذمتی قرارداد کے علاوہ سلامتی کونسل کوئی اور تادیبی کاروائی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ گذشتہ سال جب امریکہ نے بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کررہا ہے تو مصر کی پیش کردہ مذمتی قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کردیا اور اسکے حق میں ووٹ ڈالنے والوں کو دھمکی بھی دی کہ انہیں دیکھ لیا جائیگا۔
یہ قانون اقوام متحدہ کی فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کے امکانات کو مزید معدوم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ قانون ان بنیادی اصولوں کے خلاف ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج ہیں۔ یہ قانون اسرائیل کے عرب شہریوں کے انسانی حقوق کو پامال کررہا ہے۔ پارلیمنٹ میں رائے شماری کے موقع پر زبردست چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی جہاں عرب اراکین نے قانونی مسودے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور زبردست احتجاج کیا۔ اسرائیل میں 18 لاکھ عرب آباد ہیں جو ملک کی آبادی کا 20 فیصد ہیں۔ عرب آبادی تو پہلے ہی اس بات کا رونا روتی تھی کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ اس قانوں کی موجودگی میں یہ عمل قانونی درجہ حاصل کرلے گا۔ عربی زبان کو عبرانی کیساتھ سرکاری درجہ حاصل تھا جو اب ختم کردیا گیا ہے۔ ریاست کے وسائل اور اثر و رسوخ یہودیوں کی فلاح و بہبود پر استعمال ہونگے یا کم از کم ان کو ترجیح دی جائیگی۔ علاوہ ازیں جو یہودی غیر ممالک میں آباد ہیں اور جو ریاست کے شہری بھی نہیں ہے انکی فلاح اور سلامتی کو بھی ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل کرلیا گیا ہے۔ کسی قومی ریاست کا اپنی جغرافیائی حدود سے باہر غیر شہریت کے حامل افراد کو اپنی ذمہ داری قرار دینا دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ علاوہ ازیں فلسطینیوں کی چھینی ہوئی زمینوں پر، جو اسرائیل کے غاصبانہ قبضے میں ہیں، نئی بستیوں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی، فروغ، تحفظ اور ان کو قومی اثاثہ قرار دینا، مہذب دنیا اور بین الاقوامی قانون سے اسرائیل کے تنفر کا اظہار ہے۔ نیتن یاہو نے اس موقع پر اپنی تقریر میں کہا کہ ’ہم اپنی جمہوریت میں انسانی حقوق کا خیال رکھیں گے، لیکن اکثریت کے بھی حقوق ہوتے ہیں اور وہ فیصلے کرتی ہے۔ ہماری مجرد اکثریت یہ خواہش رکھتی ہے کہ اس ریاست کی یہودیت پر مبنی میراث کو آنیوالی نسلوں کیلئے بھی برقرار رکھا جائے‘۔
عالمی رائے عامہ نے اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی ہے۔ یورپین یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فریڈریکہ موغرینی کا کہنا ہے کہ ’ ’ہمیں اس قانون پر سخت تشویش ہے اور ہم اسرائیلی حکومت سے اس سلسلے میں بات کرینگے، کیونکہ ہم دو ریاستی حل پر یقین رکھتے ہیں اور اسکے حصول کیلئے کام کرتے رہیں گے“ خود اسرائیل کے اندر سے اور غیر ممالک میں بسنے والے یہودیوں نے اس قانون کی شدید مذمت کی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے بحیثیت ریاست اسرائیل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کیونکہ یہ جمہوریت اور قومی ریاست کے مسلمہ اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ قانون پسی ہوئی عرب اقلیت کو مزید پیس کر رکھ دیگا۔ احمد طبی، جو پارلیمنٹ کے عرب رکن ہیں ان کا کہنا تھا کہ’ ’میں اعلان کرتا ہوں کہ آج اسرائیل میں جمہوریت کی موت واقع ہوگئی ہے“۔