اتوار ‘ 8ذیقعد 1439 ھ ‘ 22 جولائی 2018ء
حافظ آباد کے 4دیہات کی خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں
کیوں بھئی کیا یہ عورتیں عقل میں کم تر ہیں یا اس دنیا میں معاشرے میں نہیں رہتیں ، جب ان کے ہاتھ پاﺅں آنکھیں دماغ سب صحیح سلامت ہے تو انہیں ووٹ ڈالنے سے کوئی کیوں روکے۔ ایک طرف تو ہم مرد و زن میں تفریق کیخلاف قانون بناتے پھرتے ہیں ۔ دن رات مرد اور عورت کی صنفی تقسیم کیخلاف بولتے ہیں ۔ مساوات کے نعرے لگاتے ہیں مگر عملاً ہمارا معاشرہ آج بھی مرد و زن کی صنفی تقسیم میں بٹا ہوا ہے ۔ کہیں عورتیں وارثت سے محروم ہیں تو کہیں تعلیم سے، کہیں باہر آنے جانے کی اجازت نہیں تو کہیں ملازمت کی اجازت نہیں۔ موجودہ دور میں جہاں عورتوں کو تعلیم، وراثت ، ملازمت کے حوالے سے بہت سے حقوق دئیے جا رہے ہیں ۔ انہیں آزادانہ الیکشن لڑنے کا حق بھی دیا گیا ہے مگر اس کے باوجود آج بھی ملک میں ایسے نوگو ایریا موجود ہیں جہاں عورتوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ دوردراز پسماندہ علاقوں کی بات چھوڑیں وہاں قبائل معاشرہ ابھی تک سانس لے رہا ہے، مگر یہ پنجاب کے روشن خیال کھلے معاشرے میں عورتوں کی سانس کیوں بند کی جا رہی ہے۔
یہ صرف حافظ آباد کے نواحی دیہات کا مسئلہ نہیں ایسی ہی پابندی سرگودھا اور دیگر بعض علاقوں میں بھی ہے۔ یہ تو سراسر زیادتی ہے۔ جو عورت گھر چلا سکتی ہے۔ بچے پال سکتی ہے۔ خاندان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اٹھا سکتی ہے۔ کھیتوں ، کھلیانوں ، فیکٹریوں میں مردوں کے شانہ بشانہ محنت مزدوری کر سکتی ہے۔ وہ اپنے ملک و قوم کے مستقبل کے فیصلہ میں حصّہ کیوں نہیں لے سکتی۔ عورتوں کو حق ہے کہ وہ اپنی پسند کی پارٹی یا امیدوار کو ووٹ دیں انہیں ووٹ ڈالنے سے روکنا جرم ہے جس پر انتظامیہ کو ایکشن لینا چاہیے۔
٭....٭....٭....٭
پنجاب میٹرک کے نتائج میں متوسط طبقے کے بچوں نے میدان مارلیا
اب کہاں تلاش کریں ان بڑے بڑے نجی سکولوں کے پر کشش اشتہار دکھا کر والدین کو بے قوف بنانے والے مالکان کو جن کی تمام تر اشتہاری چکا چوند کے باوجود یہ عام درمیانی طبقوں سے تعلق رکھنے والے بچے بازی لے گئے ۔ ایک دکاندار ریڑھی والے یا محنت کش گھرانوں سے تعلق رکھنے والے یہ بچے تو ہزاروں روپے فیس ادا کرنے والے سکولوں میں نہیں پڑھے۔ انہوںنے انہی عام سکولوں میں تعلیم حاصل کی جن کی استعداد ان کے والدین رکھتے تھے۔ اپنی محنت کے بل بوتے پر انہوں نے میٹرک کے امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ۔ یہ ان بچوں ان کے والدین اور سکول اساتذہ کے لئے باعث فخر ہے۔ حقیقت میں یہ چھوٹے گھرانوں اور چھوٹے سکولوں کے ان بچوں کا ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔کسی نے سچ کہا تھا
نہال اس گلستان میں جتنے بڑے ہیں
ہمیشہ وہ نیچے سے اوپر چڑھے ہیں
یہ بڑے بڑے نام والے سکول جو ہر سال لاکھوں روپے والدین سے کلچر ڈے ، کلر ڈے ، کوکنگ ڈے، اور نجانے کون کون سے ڈے منانے کے نام پر بٹورتے ہیں اگر اپنے طلبہ کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں تو ان کے بچے بھی میدان مار سکتے ہیں ۔ مگر وہاں صرف ایک خاص تعلیمی کلچر کو پروموٹ کیا جاتا ہے۔ یعنی جدید تہذیب پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور تعلیم پر کم۔
بلوچستان میں باپ اور مما کے درمیان دلچسپ مقابلہ
یوں تو پورے ملک میں الیکشن کے روز زبردست جوڑ پڑے گا۔ مگر پارٹیوں کے ناموں کے اعتبار سے جو مزیدار کیفیت بلوچستان میں نظر آ رہی ہے وہ شاید ہی کسی اور صوبے میں ہو۔ یہاں بی اے پی کو باپ کا نام دیا جا رہاہے۔ یہ نوزائیدہ سیاسی پارٹیوں یا مختلف سیاسی جماعتوں کے بھگوڑوں کہہ لیں یا الیکٹ ایبلز کا مجموعہ ہے۔ اس کے مقابلے میں دینی جماعتوں کا اتحاد ایم ایم اے کو ماماکانام دیا گیا ہے۔ جو بلوچستان میں بی اے پی باپ کی سب سے بڑی قریبی حریف بن کر سامنے ہے۔
پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، اے این پی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے تمام دھڑے بھی شریک مقابلہ میں میدان میں ہیں ان کی اہمیت اپنی جگہ مگر یہ نام کے حساب سے باپ اور ماماکے درمیان جو مقابلہ ہوتا نظر آ رہا ہے وہ صوبے میں فیصلہ کے گا کہ یہاں ماماکی حکومت چلتی ہے یا باپ کی ۔یہ صورتحال کسی اور صوبے میں نہیں۔ خود بلوچستان کے ووٹر اس مقابلے کا مزے لے رہے ہیں۔ اب باپ کا انتخابی نشان گائے ہے جبکہ ماما کا نشان کتاب ہے دیکھتے ہیں لوگ گائے کو اہمیت دیتے ہیں یا کتاب کو۔ زور دونوں طرف سے لگایا جارہا ہے۔ کتاب والے تو جذباتی بیانات کی مدد سے بھی الیکشن مہم چلارہے ہیں۔ ان کے امیدواروں تو اپنی تحریروں اور تقریروں میں کھل کر کہہ رہے ہیں کہ ”کتاب کو ووٹ جنت کی ضمانت“ یعنی کتاب کو ووٹ دو اور جنت لو۔ اب اگر مقابلے باپ والوں نے ہر ووٹر کو گائے دینے کا اعلان کر دیا تو کیاہو گا کیونکہ جنت ادھار ہے گائے نقد سودا ہے۔
٭....٭....٭....٭
ڈیمز کی تعمیر کے لئے عوام سے سر چارج وصول کرنے کا فیصلہ
ہمارے حکمرانوں اور بیورو کریٹس کا تعلق چونکہ اشرافیہ سے ہوتا ہے اس لئے وہ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت عوام کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اب فاضل چیف جسٹس کی طرف سے بھاشا اور مہمند ڈیم بنانے کی جو تحریک چلی ہے اس کے لئے انہوں نے فنڈ بھی قائم کیا ہے مگر اتنے مہنگے ڈیمز بنانے کے لئے اس فنڈ میں جمع ہونے والے رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہوگی۔ چنانچہ اب اس کام کے لئے رقم جمع کرنے کے لئے ہمارے ان عوام کے خیرخواہ حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو کچھ اور نہ سوجھا جھٹ سے وہی پرانا جال اٹھا لائے رقم حاصل کرنے کا۔ سو اب یہ سب متفق ہیں کہ ان ڈیمز کے لئے رقم عوام کی جیب سے ہی نکالی جائے گی۔ سو اب نیلم جہلم سرچارج کے بعد بھاشا اور مہمند ڈیم سرچارج وصول کیا جائے گا۔ اب جس غریب گھر میں جلتا ہی ایک بلب اور چلتا ہی ایک پنکھا ہے ۔ وہ بھی جبراً یہ سرچارج ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ بھلا اس سے یہ جبری ٹیکس وصول کرنا کہاں کا انصاف۔
کیا بہتر نہیں ہوگا کہ ہمارے بڑے بڑے متمول خاندانوں، گھرانوں اور اشرافیہ سے یہ سرچارج احسن طریقے سے بزور وصول کیا جائے ۔ مگر حکومت جانتی ہے جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے وہ سرچارج کہاں دیں گے۔ اس لئے سارا زور ایک بار پھر غریبوں کا خون نچوڑ نے پر لگایا جا رہا ہے ۔ جو پہلے ہی طرح طرح کے ٹیکس ادا کرتے ادھ موئے ہو چکے ہیں ۔
٭....٭....٭....٭