ڈالر کی بلند پروازی، معیشت کی تباہی
ڈالر گزشتہ روز مزید 30 پیسے مہنگا ہو کر 130 روپے کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ گزشتہ کئی دنوں سے روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل بھی انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر میں تاریخی کمی دیکھنے میں آئی۔ اور ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح 128 روپے 26 پیسے اور پھر 129 روپے تک پہنچ گیا تھا۔
مسلم لیگ ن نے مئی 2013ءمیں اقتدار سنبھالا، تو ڈالر 113 روپے سے کچھ اوپر تھا۔ تاہم حکومت کی مالیاتی پالیسی اور بعض اقدامات کے نتیجے میں ڈالر 99 روپے تک آ گیا۔ ڈالر کی قیمت میں کمی کا اچھا اثر یہ ہوا کہ اشیائے خوردونوش اور عام آدمی کے استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں استحکام آیا اور تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی ایک جگہ رُک گئی۔ اسکے بعد جب لیگی قیادت، اور خاص طور پر اسحٰق ڈار آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں قانون کے شکنجے میں آئے تو اُنکے مستعفی ہوتے ہی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ شروع میں تو یہ اضافہ دس پیسے روزانہ تک محدود رہا، لیکن جب نواز شریف، مریم نواز، اور ریٹائرڈ کیپٹن صفدر کو سزائیں ہوئیں تو ڈالر کو پر لگ گئے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خاتمہ کے بعد تشکیل دی گئی نگران حکومت میں بظاہر ٹیکنو کریٹ یا اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین کو شامل کیا گیاتھا۔ لیکن قومی کرنسی کا زوال نہ روکا جا سکا بلکہ نگرانوں نے پاکستان کی کرنسی کی بے قدری میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔روپے کی مزید تذلیل کےلئے مارکیٹ کو آزاد چھوڑ دیا۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھایا گیا جو اس بات کا ثبوت ہوتا کہ نگران حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ ملکی کرنسی کو مستحکم کرنے کےلئے جو عناصر ضروری ہیں اُن میں سرفہرست، درآمدات و برآمدات میں توازن، غیر ملکی سرمایہ کاری یا پھر آخری چارہ کار عالمی مالیاتی اور اداروں سے قرضوں کا حصول۔ درآمدات و برآمدات کے متوازن ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیںتو گزشتہ دو سال کے دوران کے سیاسی عدم استحکام کے باعث غیر ملکی سرمایہ کاری رُک چکی ہے۔ جہاں تک عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کا تعلق ہے، اس ذلالت سے بچنا چاہئے۔ نوے ارب ڈالر سے زائد کے غیر ملکی قرضوں نے پاکستان کو ایشیا اور افریقہ کا سب سے زیادہ مقروض ملک بنا دیا ہے۔ نگرانوں کی حکومت اب چند دنوں کی مہمان ہے، آنے والے حکمرانوں کو اس قدر اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑیگا کہ وہ اپنے منتخب ہونے پر پچھتائیں گے۔ ایک دوسرے کو کوسنے کی بجائے بہتر ہے کہ ملک کی کرنسی اور قومی معیشت کے استحکام کیلئے پائیدار عملی اقدامات بروئے کار لائے جائیں اور کرنسی کے منصوعی استحکام کی پالیسیوں سے گریز کیا جائے۔