انتخابات کے بروقت ہی نہیں‘ شفاف انعقاد کی بھی ضرورت ہے
سپریم کورٹ کا انتخابات کسی بھی صورت ملتوی نہ ہونے دینے کا عزم
سپریم کورٹ کے مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے ڈویژن بنچ نے مختلف انتخابی عذرداریوں میں دائر اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے گزشتہ روز باور کرایا ہے کہ انتخابات کسی صورت ملتوی نہیں ہونے دیئے جائینگے اس لئے یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ انتخابات ملتوی ہو جائینگے۔ فاضل عدالت نے اسی بنیاد پر اپیلوں سے متعلق بعض حلقوں میں انتخاب ملتوی کرنے کی استدعا بھی مسترد کردی اور قرار دیا کہ اس وقت انتخابات کے انعقاد میں بہت کم وقت رہ گیا ہے اس لئے التواءکی استدعا منظور نہیں کی جاسکتی۔ ایک کیس کی سماعت کے دوران فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اب انتخاب نہیں روک سکتے‘ بیلٹ پیپر چھپ چکے ہیں۔ دوران سماعت جب درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایک حلقہ میں الیکشن ملتوی بھی ہو سکتا ہے تو فاضل عدالت نے باور کرایا کہ الیکشن کسی بھی صورت ملتوی نہیں ہونے دینگے۔
یہ حقیقت ہے کہ بعض حلقے انتخابات کا شیڈول جاری ہونے سے بھی پہلے انتخابات ملتوی یا مو¿خر کرانے کیلئے سرگرم رہے ہیں جن کے مقاصد انتخابات مو¿خر کرانے کی آڑ میں بادی النظر میں جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتروانے کے ہی محسوس ہوتے تھے۔ جب اسمبلیوں کی آئینی مدت ختم ہونے کے آخری روز اچانک بلوچستان اسمبلی میں ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کرکے الیکشن کمیشن سے انتخابات ایک ماہ کیلئے مو¿خر کرنے کی درخواست کی گئی اور اسی روز ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے بھی انتخابات ملتوی کرنے کا تقاضا سامنے آگیا جس کے بعد انتخابات کے التواءکیلئے عدالتوں میں درخواستیں دائر کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تو اس سے یہی محسوس ہوا کہ بعض حلقے کسی طے شدہ اور مخصوص ایجنڈے کے تحت انتخابات کے عمل میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں تاہم اس وقت نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصرالملک ہی نہیں‘ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضاخان نے بھی دوٹوک الفاظ میں باور کرایا کہ انتخابات متعینہ شیڈول کے مطابق اور مقررہ وقت پر ہی منعقد ہونگے۔ بعدازاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی اپنے ایک ٹویٹر پیغام کے ذریعے پاک فوج کی جانب سے مقررہ وقت پر انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کا معاون بننے کے عزم کا اظہار کیا گیا جس سے انتخابات کے التواءکے حوالے سے جاری قیاس آرائیوں کا سلسلہ تو تھم گیا تاہم نیب کی جانب سے مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی اور بعض دوسری جماعتوں کے قائدین‘ عہدیداروں اور امیدواروں کیخلاف نیب کے مقدمات کھولنے اور کارروائی عمل میں لانے کے معاملہ میں سرگرمی دکھائی جانے لگی اور بعض عدالتی احکام سے بھی بطور خاص ان جماعتوں کے قائدین کیلئے گرفت مضبوط ہوتی نظر آئی جبکہ پی ٹی آئی کے لوگوں کو ریلیف ملنا شروع ہوگیا تو اس سے انتخابات کے التواءکے علاوہ انتخابات کے آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انعقاد پر بھی شکوک و شبہات کے سائے منڈلانے لگے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو لاڈلا قرار دے کر مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ اے این پی‘ جمعیت علماءاسلام (ف) اور بعض دوسری جماعتوں کے قائدین کی جانب سے آج بھی انتخابی عمل پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے اور باور کرایا جارہا ہے کہ ایک پارٹی کیلئے انتخابات کی فضا سازگار بنائی جارہی ہے جبکہ دوسروں کیلئے انتخابی میدان کے راستے مسدود کئے جارہے ہیں۔ اس تاثر کو نیب کے ریفرنس میں میاں نوازشریف‘ انکی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے ریفرنس کا فیصلہ ایک ہفتے کیلئے مو¿خر کرنے کی استدعا مسترد کئے جانے‘ انہیں اس ریفرنس میں مختلف المیعاد قید بامشقت اور بھاری جرمانوں کی سزا سنائے جانے اور پھر میاں نوازشریف اور مریم نواز کی ملک واپسی پر انہیں حراست میں لینے کے وقت تک مسلم لیگی عہدیداروں اور کارکنوں کی ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریوں اور انہیں استقبال کیلئے ایئرپورٹ جانے سے روکنے کیلئے پولیس اور انتظامی مشینری کے اختیار کئے گئے سخت ہتھکنڈوں اور پورے لاہور میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند کرنے سمیت عملاً کرفیو کی فضا پیدا کرنے سے مزید تقویت حاصل ہوئی۔ اسی طرح پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری‘ انکی بہن فریال تالپور سمیت متعدد شخصیات کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے (جس کی بعدازاں تردید کردی گئی) اور پیپلزپارٹی کے بعض ارکان کیخلاف نیب کے مقدمات دوبارہ کھولنے اور اسی طرح انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو زرداری کی ریلیوں کی راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور بعض شہروں میں انہیں داخل ہونے سے روکنے کے عمل سے بھی آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے حوالے سے پیدا ہونیوالے شکوک و شبہات کو مزید تقویت حاصل ہوئی جبکہ سندھ‘ خیبر پی کے اور پنجاب کے نگران وزراءاعلیٰ اور وزراءکی جانب سے بھی بعض ایسے بیانات دیئے گئے جس سے ان کا غیرجانبداری کا تاثر کافور ہوا ‘بالخصوص پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ پروفیسر حسن عسکری کے بعض اقدامات پر تو مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف کی جانب سے سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا اور انہیں انکے منصب سے ہٹوانے کیلئے الیکشن کمیشن سے بھی رجوع کیا گیا۔
نگران حکمرانوں کے بارے میں ایسے ہی تحفظات کا اظہار پیپلزپارٹی اور اسکے قائد بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے آج بھی کیا جارہا ہے جن کے بقول گولیاں اور رکاوٹیں پیپلزپارٹی کو نہیں روک سکتیں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف بھی ابھی تک یہی باور کرارہے ہیں کہ پنجاب حکومت پی ٹی آئی کے اشاروں پر ناچ رہی ہے‘ نیب کی کارروائیاں ہمیں دیوار سے لگانے کیلئے ہیں اور الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بن گیا ہے۔ چنانچہ یہ صورتحال انتخابات کے صرف بروقت انعقاد کی نہیں بلکہ آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انعقاد کیلئے ٹھوس اقدامات بروئے کار لانے کی بھی متقاضی ہے جبکہ انتخابی عمل کے دوران خیبر پی کے اور بلوچستان میں یکایک دہشت گردوں کے سرگرم عمل ہونے اور بطور خاص پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں کے قائدین اور انتخابی امیدواروں کو ٹارگٹ کرکے انہیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے سے انتخابی عمل پر چھائی شکوک و شبہات کی فضا مزید گہری ہونے لگی۔ کیونکہ سفاکانہ دہشت گردی کے باعث پیدا ہونیوالی خوف و ہراس کی فضا میں سیاسی جماعتوں کے قائدین اور امیدواروں کیلئے آزادی اور امن و سکون کے ساتھ رابطہ¿ عوام مہم جاری رکھنا انتہائی مشکل ہوگیا تھا۔ اسکے باوجود سیاسی قائدین نے اپنے اپنے شیڈول کے مطابق ریلیوں اور جلسے جلوسوں کی صورت میں رابطہ¿ عوام مہم جاری رکھ کر انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں کے آگے ڈٹ جانے کا عزم باندھا اور دہشت گردوں کے عزائم کو چیلنج کیا تو یہ جمہوری عمل کے ساتھ انکی وابستگی اور جمہوریت کی بقاءکیلئے انکی فکرمندی کا عکاس ہے۔
اس وقت جبکہ الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق انتخابات کی مہم ختم ہونے میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہے‘ انتخابات کے التواءکی کوئی کوشش تو شاید ہی کامیاب ہوسکے گی تاہم انتخابات کے آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات مزید گہرے ہورہے ہیں جس کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرنیوالے سیاسی حلقے عمران خان کی اس چیخ و پکار کو بھی معنی خیز قرار دے رہے ہیں کہ ہنگ پارلیمنٹ کی تشکیل ملک کی بدقسمتی ہوگی۔ ان حلقوں کے بقول عمران خان کو کامیابی کا اس حد تک یقین دلایا گیا ہے کہ انہیں مخلوط حکومت تشکیل دینا بھی گوارا نہیں۔
یہی وہ حقائق و شواہد ہیں جو نگران حکمرانوں اور الیکشن کمیشن سے انتخابات کے بروقت انعقاد کے ساتھ ساتھ شفاف انعقاد کے بھی متقاضی ہیں۔ بے شک سپریم کورٹ بھی انتخابات کے بروقت انعقاد کیلئے پرعزم ہے تاہم انتخابی میدان میں اترنے والی اکثر سیاسی جماعتوں کے قائدین کو شفاف اور آزادانہ انتخابات کے حوالے سے تحفظات ہیں جس کا وہ شدومد کے ساتھ اظہار بھی کررہے ہیں تو فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ان تحفظات کا بھی اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لینا چاہیے تاکہ کل کو انتخابی عمل کے بارے میں کسی جانب سے بھی انگلی نہ اٹھ سکے۔ اگر انتخابات کے بروقت انعقاد کے باوجود یہ شفافیت کی بنیاد پر متنازعہ ہوگئے تو اس سے آئین اور اسکے تحت قائم سسٹم کو سخت دھچکا لگے گا اس لئے متعلقہ قومی اداروں کو انتخابات کے عمل پر کسی بھی قسم کا دھبہ نہیں لگنے دینا چاہیے۔ آج یقیناً دنیا کی توجہ بھی انتخابات کی شفافیت پر ہی مرکوز ہے۔