پچیس جولائی کو ہونے والے انتخابات کے بارے میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف دعویٰ کررہی ہیں کہ انہیں دو تہائی اکثریت ملے گی۔پیپلزپارٹی بھی 25 جولائی کے انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ کررہی ہے۔رائے عامہ کا جائزہ لینے والے اداروں کے اب تک جو سروے سامنے آئے ہیں ان کے مطابق پاکستان مسلم لیگ(ن)اور تحریک انصاف کے درمیان سخت مقابلہ ہونے کا امکان ہے،ان سروے رپورٹوں کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن)کو اب بھی پنجاب میں اپنی بڑی حریف جماعت تحریک انصاف پر کسی حد تک قریب سبقت حاصل ہے۔ یہ سروے یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ ابھی تک 15 سے 20 فیصد تک ایسے ووٹرز بھی ہیں جنہوں نے یہ فیصلہ نہیں کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے۔سروے رپورٹوں میں بتایا گیا کہ جن ووٹروں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا ان کے فیصلہ سے یہ بھی طے ہوگا کہ اگلی حکومت کون بنائے گا!
اب تک رائے عامہ کے جو جائزے سامنے آئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگلی حکومت جو بھی بنائے گا اس کے پاس دو تہائی اکثریت کا ہونا محال ہے۔یہ حکومت ایک کوالیشن حکومت ہوسکتی ہے اس حکومت کی اپوزیشن بھی بہت تگڑی ہوگی یہ حکومت ایسے ماحول میں بنے گی جس میں تلخی بہت زیادہ ہوگی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی جماعت جس انداز میں اقتدار سے رخصت ہوئے ہیں اس سے یقینا ان کے اندر ایک تلخی آگئی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف مسلسل یہ الزام لگارہے ہیں کہ انہیں ایک سازش کے ذریعہ اقتدار سے الگ کیا گیا ہے وہ پانامہ کے کیس کو بھی اسی سازش کی ایک کڑی قرار دیتے ہیں جو انہیں اقتدار سے الگ کرنے کے لئے تےار کی گئی۔ سابق وزیراعظم اور ان کی جماعت یہ بھی سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف اور کچھ دوسری جماعتیں ان کے خلاف ایک مہرہ کے طور پر استعمال ہوئی ہے۔ تحریک انصاف نے جس انداز میں سابق وزیراعظم نواز شریف کیخلاف پانامہ کا کیس لڑا اور پھر نواز شریف کی سپریم کورٹ کی طرف سے وزارت عظمٰی کے منصب اور پارٹی کی صدارت سے نااہلی کے بعد ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف جو مہم چلائی ، سوشل میڈیا پر خاص طور پر انہیں ہدف تنقید بنایا اس سے مسلم لیگ(ن)اور تحریک انصاف کے درمیان اختلافات کوسیاسی سے زیادہ ذاتی بن گئے ہیں ذاتی بنادیا ہے۔
ایسے ماحول میں جو بھی اگلی حکومت بنائے گا۔ اسے ایک بے رحم قسم کی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس خاکسار کو نوے کی دہائی میں ہونے والے انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کا دور یاد ہے۔اس دور میں پارٹیز پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) ہر وقت سر پٹھول کے لےے تےار رہتی تھیں اسمبلی یا سینٹ کا کوئی اجلاس ایسا نہیں ہوتا تھا جس میں کشیدگی اور تلخی نہ ہو۔ تعمیری تنقید اس دور میں ناپید تھی حکومت اور اپوزیشن کے ارکان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی حکمت عملی کرکے آتے تھے۔شائستہ پارلیمانی زبان کی بجائے ایسی زبان استعمال ہوئی تھی جسے سپیکر صاحبان کو کارروائی سے حذف کرانا پڑتا تھا۔ خدا نہ کرے کہ نوے کی دہائی کا وہ دور واپس آجائے2008 سے 2018 تک کی پارلیمنٹ کا ماحول ماضی کے مقابلے میں خاصا بہتر تھا۔ اسی دور میں قانون سازی ہوتی رہی اور قومی مسائل بحث بھی بڑی حد تک تہذیب اور شائستگی کی حدود میں رہی۔آنے والے انتخابات کے بعد جو اسمبلیاں وجود میں آئیں گی ان کا ماحول شایدایسا نہ ہو جو گزشتہ دس برس میں رہا۔اگلی حکومت کو جہاں ایک ٹف اپوزیشن کا سامنا ہوگا وہاں اسے ایک پیچیدہ معاشی چیلنج کا مقابلہ بھی ہوگا۔ پاکستان اس وقت جس معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کو سنگین معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ابھی سے آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ممتاز معیشت دان یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے ذمہ اس وقت 80 ارب ڈالر سے زیادہ کا غیر ملکی قرضہ چڑھ چکا ہے جسے اتارنے کے لئے بڑے جتن کرنا پڑیں گے۔
معاشی بحران کو حل کرنے کے لئے جس طرح کی سیاسی مفاہمت اور انڈرسینڈنگ کی ضرورت ہے وہ اگلی پارلیمنٹ بھی پیدا کرنا پڑا کٹھن کام نظر آتا ہے۔ راقم کے یہ خدشات غلط بھی ہوسکتے ہیں لیکن بظاہر جو رجحان نظر آرہے ہیں وہ اتنے حوصلہ افزا نہیں ہیں،تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔ جے یو آئی (ف) کے لیڈر مولانا فضل الرحمن کے بارے میں بھی ان کی رائے سب کو معلوم ہے ایم کیو ایم اور اے این پی کے ساتھ بھی ان کا نبھاہ مشکل نظر آتا ہے۔ ان حالات میں آنے والے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کیلئے آسودہ ماحول بنتا نظر نہیں آ رہا۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024