بابری مسجد کو شہید کرنے والے شرمناک واقعہ کے بعد بی جے پی پاکستان اور مسلمان دشمنی میں اس قدر آگے نکل چکی ہے کہ مہاراشٹرا صوبہ جہاں کہ اس جماعت کی حکومت ہے کے ایک ایم ایل اے منگل پرساد نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ جناح ہاؤس کو مسمار کر دیا جائے۔ اس قابل مذمت اور ناقابل عمل مطالبہ کیلئے یہ دلیل دی گئی ہے کہ مہاراشٹرا صوبہ کے قیام کے پچاس سال مکمل ہوجانے کے موقع پر جناح ہاؤس جیسی شاندار اور تاریخی عمارت کو محض اس لیے نیست و نابود کر دینا چاہیے کہ یہ تقسیم ہند کی ’’سازش‘‘ کی علامت ہے۔ جو یہاں سے شروع ہوئی، پروان چڑھی اور بعد ازاں اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔ ماضی میں کئی مرتبہ حکومت پاکستان نے اس عمارت کو خریدنے یا لیز پر لینے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن بھارت کی طرف سے منفی رد عمل سامنے آیا۔ قبل ازیں قائداعظم کی صاحبزادی اٹھاسی سالہ مسز دینا واڈیا جو کہ خود ایک برطانوی شہری ہیں اور ٹیکسٹائل کی دنیا کی ایک اہم شخصیت کی والدہ ہیں نے بھارت جا کر حکومت سے جناح ہاؤس کا قبضہ اُن کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا جو کہ رد کر دیا گیا۔ در حقیقت اُن کا یہ مطالبہ اور جناح ہاؤس پر دعویٰ جائز اور بجا نہیں تھا اور نہ انہیں استحقاق حاصل تھا کیونکہ قائداعظم نے انہیں اپنی زندگی میں ہی عاق کر دیا تھا۔ اور اُن کی وصیت کے مطابق اُن کی تمام جائیداد صرف تین بڑے اداروں اسلامیہ کالج پشاور، انجمن حمایت اسلام اور سندھ مدرسہ میں تقسیم کی گئی اور اُن سے لا تعلقی کی محض وجہ قائد اعظم کے بار بار منع کرنے کے باوجود اُن کی ایک غیر مسلم سے شادی تھی۔ قائداعظم نے اپنے آپ کو اُن سے اِس حد تک دور کر لیا تھا کہ وہ خط و کتابت کرتے وقت بھی انہیں مسز واڈیا کے نام مخاطب کرتے تھے۔
جناح ہاؤس کے نام سے موسوم یہ محل نما شانداز بلڈنگ تئیس سال خالی پڑی رہی اور اب اُسے آرٹ اور ثقافت کے مرکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس عالی شان عمارت جو کہ مالا بار ہل کے علاقہ میں ماؤنٹ پلیزینٹ روڈ پر واقع ہے‘ ساؤتھ کوٹ ہاؤس کے نام سے جانی جاتی تھی۔ قائداعظم نے سر ڈنشا ہنٹ (جو بعد میں قائداعظم کے سسر بھی بنے) کے مشورہ سے ایک انگریز سر وکٹر سے ایک لاکھ پچیس ہزار روپے میں خریدی تھی۔ اس عمارت کو انگلستان کے مشہور ماہر تعمیرات سر کلاؤڈ بیٹلے نے ڈیزائن کیا تھا۔ اور تکمیل کے مراحل طے کرنے کے بعد یہ کسی شاہکار سے کم نہ تھی۔ اور کوئی بھی آدمی اُس کی تعریف کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اڑھائی ایکڑ پر محیط اس عظیم الشان عمارت کی موجودہ قیمت کا تخمینہ چار سو ملین ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے۔ قائداعظم ایک بلند پایہ وکیل اور سیاستدان ہونے کے علاوہ اعلیٰ ذوق اور مزاج کے حامل انسان تھے۔ اُن کے ہر کام اور عمل میں بڑا پن جھلکتا تھا۔ اس بات کا ندازہ اُن کے لباس، دفاتر، رہائش گاہوں، تقاریر اور حکمت عملی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ قائداعظم رتن بائی جن کا نام اسلام قبول کرنے کے بعد مریم جناح رکھا گیا کو قائداعظم نے ڈونگا کے علاقے کی جامع مسجد میں نکاح کے بعد ایک لاکھ پچیس ہزار روپے نقد بطور مہر ادا کیا تھا کے ساتھ ساؤتھ کوٹ ہاؤس (جناح ہاؤس) میں منتقل ہوگئے۔ اس سے پہلے اس کی تزئین و آرائش کی گئی۔
قارئین کرام کی خدمت میں ضمناً عرض ہے کہ قائداعظم نے جو بھی گھر خریدایا بنایا اُس میں ان کا اعلیٰ ذوق اور معیار نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ لندن میں ویسٹ ہیتھ روڈ پر اُن کا تین منزلہ گھر آٹھ ایکڑ پر محیط تھا۔ اتنے بڑے گھر میں صرف تین لوگ یعنی قائداعظم خود ، اُن کی صاحبزادی اور محترمہ فاطمہ جناح رہتے تھے اور گھر کا سارا سٹاف ڈرائیور، گارڈ اور بٹلر وغیرہ سب گورے تھے۔ نئی دہلی میں -10 اورنگزیب روڈ پر عالیشان گھر بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے اور 1943ء کو خریدا جانے والا کراچی میں کلفٹن میں واقع بنگلہ (فلیگ سٹاف ہاؤس) سب کے سامنے ہے۔ بھارت جناح ہاؤس پاکستانی حکومت کے حوالے کرنے میں بڑی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ہمیں اس مطالبہ پر اپنے مؤقف کو سخت رکھنا چاہیے اور کبھی دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ قومی حمیت کا تقاضا ہے کہ بھارتی سفیر کو بلا کر سختی سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ جناح ہاؤس یا ہمیں بیچ دیں یا لیز پر دے دیں تاکہ وہاں سفارت خانہ یا قونصلیٹ کھولا جا سکے۔ بی جے پی کے اس مذموم مطالبہ کہ اس کو مسمار کر دیا جائے کی بڑی سختی سے ہر فورم پر مخالفت کی جا نی چاہیے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024