جامعہ پنجاب میں تحقیقی تعارف، علمی مشاغل اور ادبی محافل کو فروغ
تحریر: ڈاکٹر افتخار حیدر ملک
ڈاکٹر مجاہد کامران ( ستارہِ امتیاز )
ڈاکٹر مجاہد بلاشبہ سراپا علم ہیں اور علم سے محبت ان کی گھٹی میں شامل ہے۔ ہر لمحہ ان کے دامن میں علمی محبت کی خوشبو مہکتی اور امید افزا لفظوںکی خیرات بٹتی نظر آتی ہے۔ آج جبکہ عصر حاضر میں شاہراہِ حیات پر قدم قدم پر معاشرتی ناہمواریوں اور علمی کوتا ہیوں کا بحران ہے۔ ہر موڑ ایک سوالیہ نشان ہے۔ کہ آگے بڑھتے ہوئے بے سمتی اور بے راہ وری کا خوف دامن گیر ہے۔ مال و زر کی ہوس اور اقتدار و اختیار کے لالچ نے دلوں کی دنیا و یران کر رکھی ہے ۔ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔ چہروں سے علم کی روشنی اور دلوں سے علمی بصیرت غائب ہو چکی ہے ایسے میں ہمیں مجاہد کامران جیسی ہمہ جہت شخصیات کی شدید ضرورت ہے۔ جو حالاتِ حاضرہ پر پوری نظر رکھتے ہیں۔ جنہیں رب نے علم کے موتیوں سے مزین کر رکھا ہے۔ جو بات کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ اور اپنے عمل میں اٹل گیر بھی ہیں ۔ جو کہتے ہیں گویا کر دیکھاتے ہیں ۔ علم و عرفان سے بحرہ ور ایسے لوگ دنیا کو فیض و فضل سے معطر اور منور رکھتے ہیں اور علم کی روشنی قدم قدم پر ان کی رہبر و دمساز ہے۔
یہ ستارہ امتیاز جس موضوع پر بھی لب کشائی کرتاہے اس کے نہ صرف نشیب و فراز کی نشاندھی کرتا ہے بلکہ ان کی معلومات کا وسیع سمندر مخصوص الفاظ کے تلاطم کے ساتھ امڈتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے منفرد ا سلوب کی کشش دراصل ان کے اخلاص کی سچائی کی آئینہ دار ہے جس کے ساتھ سلاست و روانی اور لب و لہجہ کا بے ساختہ پن نمایاں ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا پیرائیہ اظہار نہ صرف عام فہم ہے بلکہ اس اعتبار سے جدید اور جدا بھی ہے کہ فوراً سامع کے دل میں اتر جاتا ہے وہ اپنی بات اس طرح شروع کرتے ہیں کہ گویا کوئی شاعر دو مصرعوں میں جہانِ معنی سمو دیتا ہے اور بعض اوقات ایک مصرعہ بھی کفایت کرتا ہے۔ آپ کی گفتگو میں دوراندیشی۔ جاذبیت، مکالمہ اور تکرار جیسے عناصر در آتے ہیں۔ اور خیال افروز اور فکر آفریں الفاظ لوح دل پرثبت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ علم و ادب اور تحقیق و تالیف کی آمیخت کے ساتھ متصوفانہ زمزیت کا گہرا فلسفہ سمیٹے ہوئے ان کی تقریر سے ہر سامع اور ان کی تحریر سے ہر قاری اپنے اپنے ذوق اور ظرف کے مطابق مستفید ہوتا ہے۔
ان کی مجلس میں بیٹھنے سے ایک نامعلوم کشش۔ ایک بے نام سرشاری، خواہ مخواہ کی سرخوشی اور خوشگوار ی محسوس ہوتی ہے۔ مزاج اور فکر و عمل کے لحاظ سے بے باک- عمیق اور ہر لخطہ منزل کی طرف رواں دواں رہنے والے اس وائس چانسلر نے اپنے شعوری نظام اور دما غی شعور کے تحت تعلیمی جہتوں اور علماتی امنگوں کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں علمی مشاغل۔ ادبی محافل ، تحقیقی تعارف کو بہت فروغ دیاہے۔
علم بلاشبہ زندگی کا حسن ہے اور زندگی کی خوبصورتی علم سے ہے۔ یہ ایسی خوشبو ہے جو انسان کے ذہن کو معطر رکھتی ہے۔ یہ ایسا زیور ہے جس سے آراستہ ہو کر ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ علم کے ذریعے ہی کائنات کو مسخر کیا جا سکتا ہے۔ اورکیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم ہی معاشرے میں معنی خیز تبدیلی لا سکتی ہے اور کامیابی کا سورج تعلیم کے افق سے ہی طلوع ہوتا ہے۔ تعلیم کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی کیمیا گری کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی ہمارے مرض کو نسخوں کی کمی ہے۔ اگر الفاظ درد کا درماں ہوتے، تو ہم کب کے اپنے مصائب کے پہاڑ کو کاٹ کر دودھ اور شہد کی نہریں بہا چکے ہوتے۔ پاکستان وہ سرزمین ہے جو اپنے آغاز میں امید افزا صبح نو کی کرنوں سے تاباں تھی مگر آج اس کے مستقبل پر مصائب اور مفلسی کی تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ احتیاج کی زنجیروں میں جکڑے اور حمیت کو جنسِ بازار بنا دینے والے معاشرے کبھی سراٹھا کر نہیں چل سکتے۔