اس رمضان میں بھی ” پھل اور اشیائے خوردونوش“ عام آدمی کی قوت خرید سے باہر
کنول شہزادی
ایسے ممالک جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہے وہاں کی مقامی حکومتیں بھی مسلم کمیونٹی کےلئے عید جیسے خوشی کے دیگر تہواروں پر سستے بازاروں کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں یوں سستے داموں چیزوں کی خریداری کرکے لوگ خوشی محسوس کرتے ہیںاور بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کی فضا پروان چڑھتی ہے ۔اسی طرح زیادہ تر مسلم ممالک میں بھی خاص اہتمام کے ساتھ عید اور رمضان پیکج کا اہتمام کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں معاملہ اس کے بر عکس ہے یہاں رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں عید جیسے خوشی کے تہواروں پر چیزیں مہنگی کر دی جاتی ہیں۔اس مرتبہ بھی رمضان المبارک میں پھل اور اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں پھل تو خاص کر اس مرتبہ عام آدمی کی پہنچ سے بالکل ہی باہر ہے ۔آج سے چند برس قبل تک افطاری کے دسترخوان میں پھل ایک لازمی جزو ہوا کرتا تھا۔فروٹ چاٹ کے بغیر افطاری کی تیاری ادھوری تصور کی جاتی تھی لیکن اب یہ وقت آن پہنچا ہے کہ عام آدمی پھل اور فروٹ چاٹ کھانے کو ہی ترس گیا ہے۔اگر ہم ان چیزوں کی قیمتوں کا جائزہ لیںتو کیلے ڈیڑھ سو روپے سے لیکر تین سو روپے تک فروخت ہو رہے ہیں،سیب اسی روپے سے لیکر دو سو روپے ،لیچی سو روپے،آڑو اورخوبانی ایک سو اسی ،انگور چار روپے کلو،آلو بخارا اور چیری جیسی دیگر چیزوں کی قیمتیں گزشتہ برس کی نسبت خاصی زیادہ ہیں۔اسی طرح بیسن،کھجور جیسی ضرورت کی دیگر چیزیں مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بازاروں میں پھل کی خریداری کرنے والوں کی تعداد ابھی تک تو خاصی کم رہی ہے۔غریب کےلئے تو رمضان اور عام دنوں میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ غریب آدمی تو مزید مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے کیونکہ جب وہ افطاری کے دسترخوان کو معمولی چیزوںسے بھی نہیں سجا سکے گا تو اس کےلئے کیا رمضان اور کیا عام دن۔اگرچہ حکومتیں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اشیائے خوردونوش پر خصوصی پیکیجز کا اعلان کرتی ہے لیکن بعض دوکانداروں کی ڈھٹائی ہے کہ وہ نئی قیمتوں کے آنے کے باوجود پرانی قیمت میں فروخت کرتے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس با برکت مہینے کی عظمت کا خیال کرتے ہوئے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مناسب حد تک کمی لائی جا ئے تاکہ روزہ داروں کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔لیکن صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہوتی ہے نہ صرف اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ ان کی کوالٹی میں بھی قدرے کمی آجاتی ہے ایسے میں خواتین مہنگائی کے عذاب سے بچنے کے لئے اپنے گھر کے بجٹ میں ہی آخرکار تبدیلی لاتی ہیں تاکہ یہ مہنیہ بخیر و عافیت گزر جائے ۔حالت یہ ہے عام آدمی آج پورے گھرانے کو تین وقت کی روٹی دینے کے لئے سبزی یا دالیں خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتا بچوں کی فیسں ،بجلی،پانی اور گیس کے بل ہی اس کے بجٹ کا ستیا ناس کر کے رکھ دیتے ہیںخدانخواستہ گھر کا کوئی فرد بیمار ہوجائے یا اچانک مہمان آجائیں تو متوسط طبقے کے گھرانے کو اپنا مہینہ چلانے اور راشن پانی پورا کرنے کی فکر ہی مار دیتی ہے ۔عام آدمی اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ اپنے بچوں کو گوشت،پھل کہاں سے کھلائے ہر طرف مہنگائی اور بیچارگی نے اسے گھیر رکھا ہے گھر میں 6/7افراد کی ضرورتیں ہر وقت منہ کھولے رکھتی ہیں ۔بچوں کی فیسیں اور یوٹیلٹی بل کے معاملات کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا