ہم تنگ آ گئے‘ حکومت چاہتی ہے کہ کرپشن کیسوں کی سماعت بند کردیں تو کردیتے ہیں : جسٹس رمدے
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ سٹیل مل کرپشن کیس کی تفتیش شفاف اور غیر جانبدارانہ کی جائے‘ عدالت عظمیٰ کے احکامات کا غلط استعمال نہ کیا جائے‘ فریقین کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جو نقصانات کا تعین کرے‘ رپورٹ چار ہفتوں میں پیش کی جائے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کا مقصد قوم کی لوٹی گئی رقم واپس دلانا ہے‘ قانون کی حکمرانی کا حلف اٹھایا ہے‘ خلاف ورزی نہیں ہونے دیں گے۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ چھ چھ بجے تک سماعت کا یہ مقصد نہیں کہ فیصلوں پر عمل ہی نہ کیا جائے‘ حکومت چاہتی ہے کہ عدالت کرپشن سے متعلق مقدمات کی سماعت بند کر دے تو ہم کر دیتے ہیں پھر ہمارا کوئی تعلق نہیں ہو گا اگر ڈی جی ایف آئی اے پر اعتماد نہیں تو پھر ایماندار افسر کہاں سے لائیں۔ جس افسر کا نام لیتے ہیں اور جس پر سب کو اعتماد ہوتا ہے حکومت کہتی ہے اس نے اور کام کرنے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل عابد ساقی نے عدالت کو بتایا کہ کیس میں اب تک 14 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بعض نے عبوری ضمانتیں کرا لی ہیں۔ آڈیٹر جنرل نے تسلیم کیا ہے کہ معاملے میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے۔ ملوث افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے لئے وزارت داخلہ کو بھیجے ہیں۔ ملوث افراد کے اکاونٹ منجمد کر دئیے ہیں۔ انہوں نے ایف آئی اے کی جانب سے یقین دہانی کرائی کہ معاملے کی تفتیش میں عدالت عظمیٰ کے احکامات پر ان کی روح کے مطابق عمل ہو گا۔ کرپشن کے معاملے میں ملوث کی گئی ایک کمپنی امریکی سٹیل مل کے وکیل خالد انور نے کہا کہ بہت بڑی کرپشن ہوئی ہے لوٹی گئی رقم وصول کی جانی چاہئے۔ ملوث افراد کو سزا ملنی چاہئے مگر بلاوجہ کسی کو ہراساں نہ کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ 22 ارب روپے کی کرپشن صرف ایک سال 2008-09ءمیں ہوئی اور یہ موجودہ حکومت کی مقرر کردہ انتظامیہ کے زیر انتظام ہوئی‘ اس سے قبل مل منافع دے رہی تھی۔ حکومت کی مقرر کردہ انتظامیہ مل کو چلا ہی نہیں سکی۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ نے معاملے سے متعلق 50صفحات کی رپورٹ تیار کی تھی جس میں ملوث اصل افراد کی نشاندہی کی گئی تھی مگر انہیں ہٹا دیا گیا۔ ملوث اصل افراد کو گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ اصل ملوث فرد ریاض لال جی کے خلاف مقدمہ ہی درج نہیں کیا گیا۔ ایران میں پاکستان سے تین گنا بڑی سٹیل مل ہے جس کے ملازمین کی تعداد سات ہزار کے قریب ہے جبکہ ہماری سٹیل مل کے 17 ہزار ملازمین ہیں۔ موجودہ دور میں پرانے کئی ملازمین نکال کر نئے بھرتی کر لئے گئے۔ اس سلسلے میں تین ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئیں‘ نکالے جانے والے ملازمین نے حکم امتناعی لے لیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ مل سات ماہ بند رکھنا پڑی۔ نقصان دراصل مل کو بیوروکریٹک انداز میں چلانے سے ہو رہا ہے۔ ایف آئی اے ڈیلرز کو ہراساں کر رہا ہے‘ 20 کمپنیوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا مقصد لوٹی گئی رقم واپس دلوانا ہے‘ تاہم جاری تفتیش میں مداخلت نہیں کر سکتے یہ ہمارا نہیں ای آئی اے کا دائرہ اختیار ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ قوم کا سرمایہ محفوظ بنایا جائے جو بھی کارروائی ہو قانون کے مطابق ہونی چاہئے۔ سپریم کورٹ کے نام پر کسی کو ہراساں نہ کیا جائے تاکہ قوم کو علم ہو۔ اخبارات کے مطابق نقصانات 22 ارب سے کہیں زیادہ ہیں‘ ہمارا کام قانون کی حکمرانی کو ممکن بنانا ہے کیونکہ ہم نے اس کا حلف اٹھایا ہے باقی کام ایف آئی اے کا ہے۔ خالد انور نے کہا کہ ایف آئی اے نے تو اصل آدمی کو چھوڑ دیا‘ ملازمین کو ملوث اور مالکان کو چھوڑا جا رہا ہے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے کراچی جا کر خود کہا کہ چھوٹے ملازمین کو گرفتار کر لو تاکہ سپریم کورٹ کو بتایا جا سکے کہ ایف آئی اے کام کر رہا ہے۔ 15مارچ سے ملوث افراد نے عبوری ضمانتیں کرا رکھی ہیں جو تاحال منسوخ نہیں کرائی گئیں۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کو لکھا ہے کہ ضمانت کی منسوخی سے متعلق مقدمات کی سماعت جلد کی جائے۔ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں‘ عدالت کے استفسار کیا کہ آپ کے ہاتھ کس نے باندھے ہیں مگر انہوں نے بتانے سے گریز کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی طور پر معاملے کی نگرانی کے لئے کہا ہے۔ خالد انور نے کہا کہ وہی تو مسئلہ ہیں۔ چھوٹے ملازمین کو پکڑنے میں بدنیتی شامل ہے۔ جسٹس رمدے نے کہا کہ اگر ان پر بھی اعتماد نہیں تو پھر ایماندار افسر کہاں سے لائیں۔ طارق کھوسہ کو تفتیش دی تھی جس پر سب کو اعتماد تھا مگر حکومت نے کہا کہ انہیں اور کام کرنے ہیں جو کام کرنے کو کہیں وہ کیا نہیں جاتا‘ ہم تو تنگ آ گئے ہیں اگر حکومت چاہتی ہے کہ کرپشن کے کیسوں کی سماعت بند کر دیں تو کر دیتے ہیں‘ ہم خواہ مخواہ چھ چھ بجے تک بیٹھے رہتے ہیں‘ جب عمل ہی نہیں ہونا‘ پھر ٹھیک ہے جو دل میں آتا ہے کرو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ میں تو اب پچھتا رہا ہوں چیف جسٹس کی بات مان کر‘ اچھا بھلا چھوٹے موٹے مقدمات کی سماعت کرتا تھا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کی وجہ سے ادارے ڈرتے بھی ہیں۔ جسٹس رمدے نے کہا کہ ہمارے ڈر سے بے ایمانی کر سکتے ہیں تو ایمانداری کیوں نہیں کرتے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں یقین دہانی کراتا ہوں کہ کسی کو ناجائز تنگ نہیں کیا جائے گا‘ جسٹس رمدے نے کہا کہ آپ کی کون سنتا ہے‘ یہاں تو ہماری کوئی نہیں سنتا۔ انہوں نے کہا کہ دو ماہ کی مہلت دی جائے‘ عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے شفاف تفتیش کرے۔ ڈی جی ایف آئی اے ذاتی طور پر نگرانی کریں۔ ایک کمیٹی بنائی جائے جو اصل نقصانات کا یقین کرے اور ایک ماہ میں رپورٹ پیش کی جائے۔