ایک اخباری اطلاع کے مطابق سابق وزیراعظم پاکستان شوکت عزیز نے غیر ملکی سربراہان سے سات سو کے لگ بھگ تحفے وصول کئے۔ اپنے ماتحت عملے سے اپنی مرضی کے مطابق ان کی BOOK VALUE لگوائی اور اس طرح کروڑوں روپے کے تحفے کوڑیوں کے بھاؤ خرید لئے۔ چونکہ ہشیار انسان تھا اس لئے اپنے باس پرویز مشرف کو بھی سنہری راستہ دکھا کر اس ڈگر پر ڈال دیا۔ شاہ صاحب نے سب تحفے تو ڈیکلئر نہیں کئے لیکن تبرکا جو ظاہر ہے وہ بھی ریوڑیوں کے بھاؤ پڑے۔
میں نے اپنی کتاب ’’پہنچے ترے حضور‘‘ میں لکھا تھا کہ حج کے موقعہ پر مکہ معظمہ میں ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی۔ پوچھنے لگا پاکستان کا وزیراعظم کون ہے؟ کہاں سے لایا ہے۔ کیا چاہتا ہے اور بالآخر اسے کہاں جانا ہے۔ میں نے جواب دیا۔ یہ تو جہاں سے آیا ہے جلد یا بدیر وہیں چلا جائے گا لیکن حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم زندہ قوم ہیں ہم تو سنگاپور کے ہسپتالوں سے جاں بلب مریضوں کو اٹھا لاتے ہیں اور اس بدقسمت ملک کا وزیراعظم بنا دیتے ہیں۔ اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ معین قریشی تین ماہ تک رہا اور یہ تین سال مسلط رہا۔ شاید لوگوں کو یہ تو معلوم نہ ہو کہ وہ کون تھا لیکن یہ بات قریباً شوکت علی شاہ بھی جانتے ہیں کہ اسے کسی آقائے نعمت نے بھیجا تھا۔ اس کا ایجنڈا کیا تھا اس نے کمال ہشیاری سے نہ صرف سوپر پاور کا ایجنڈا مکمل کیا بلکہ بہتی گنگا میں اشنان کرکے اپنا الو بھی سیدھا کر گیا۔ اس تمام عرصے میں وہ باس کو بھی باور کراتا رہا کہ طویل اقتدار کے بعد جلاوطنی ایک تاریخی مجبوری ہوتی ہے۔ یورپ میں آجکل خاصی مہنگائی ہے۔ لندن میں پنشن سے تو ایک دن کا خرچہ بھی نہیں نکل سکتا اس لئے ’’فراست‘‘ سے کام لینا چاہئے۔ سفر جب طویل اور کھٹن ہو تو ’’زاد راہ‘‘ بھی اسی حساب سے اکٹھا کرنا چاہئے۔ ایک ٹی وی اینکر پرسن کو انٹرویو دیتے ہوئے جب جرنیل شاہ صاحب نے کہا کہ لندن میں مکان انہیں ایک دوست نے خرید کر دیا ہے تو ہماری
ہنسی اور حیرت یکجا ہو گئیں۔ سب پنشن یافتہ سرکاری ملازمین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ وہ لوگ جن پر آپ نے ساری سروس کے دوران ان گنت احسانات کئے ہوں‘ وہ اپنی شکل تک دکھانے کے روادار نہیں ہوتے۔ یہ پتہ نہیں کون سر پھرا ہے جو دور اقتدار کے بعد بھی ان کا ممد اور معاون ثابت ہو رہا ہے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ شوکت عزیز کو تین سال کے عرصے میں سات سو تحائف ملے ہیں تو پھر گذشتہ اکسٹھ سالوں میں صدور‘ وزرائے اعظم اور دیگر وزراء کو تحفوں کی تعداد چالیس پچاس ہزار تک جا پہنچتی ہے۔ توشہ خانے کا ریکارڈ چیک کرنے پر پتہ چل سکتا ہے کہ کس صدر اور وزیراعظم نے کس قدر تحفے ڈیکلئر کئے اور انہیں کس بھاؤ خریدا جو تحائف جمع ہوئے ان کا کیا حشر ہوا اور انہیں کس قیمت پر نیلام کیا گیا۔ دراصل اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے دوہرا معیار مقرر کر رکھا ہے۔ اگر بڑے آدمی کو تحفہ ملے تو سارا عملہ دامن نیاز کی طرح بچھ جاتا ہے۔ اپنے ہی مقرر کردہ اداروں سے انکی ٹکہ ٹوکری قیمت لگوائی جاتی ہے اور اس طرح باس کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے۔ باالفرض محال کوئی چھوٹا اہلکار تحفے ظاہر کرے تو یہ الٹا اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ کیوں اور کس طرح اس نے تحفہ حاصل کیا۔ یادش بخیر جب میں 1988ء میں ڈی سی رحیم یار خان تھا تو شیخ زید نے دور رینج روورز مجھے اور کمشنر ملک عبدالحمید کو تحفے میں دیں۔ ملک صاحب کے منع کرنے کے باوجود میں نے انہیں توشہ خانہ بھجوا دیا اور محکمے سے درخواست کی کہ قانون کے مطابق انکی BOOK VALUE لگوائے ہم وہ گاڑیاں خریدنا چاہتے تھے ان دنوں غلام اسحاق خان عبوری سربراہ تھے۔ انہوں نے گاڑیاں ضبط کر لیں۔ الٹا ہم پر ناراض ہوئے کہ اتنا بڑا تحفہ وصول کیوں کیا۔ جب محکمے کو بتایا کہ قانون سب کیلئے برابر ہے تو کہنے لگے۔ اچھا اب ہمیں قانون بھی سکھاتے ہوا (فارسی کا محاورہ ہے۔ ہرکہ در کان نمک رفت نمک شد‘ ہمارا توشہ خانہ ایک ایسا طلسم ہوشربا ہے جس میں سونا داخل ہو تو وہ بھی کوئیلہ بن کر باہر نکلتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس شخص نے بھی اس راز کا انکشاف کیا ہے اس نے دراصل سابق وزیراعظم پر احسان کیا ہے۔ ایک چھوٹے ISSUE نے بڑے سکینڈل دبا دئیے ہیں۔ جہاں ذاتی منفعت کیلئے سٹاک مارکیٹ کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہو۔ نج کاری کے نام پر کروڑوں کمائے گئے ہوں۔ بیک جنبش قلم بنکوں کو اربوں روپے کا منافع دلوایا گیا ہو۔ سٹیل ملز اس قیمت پر بیچی گئی ہو جہاں کٹ کٹا کر الٹا حکومت کو کچھ رقم خریدار کو دینی پڑی ہو۔ جہاں گھپلوں کی تعداد تحفوں سے بڑھ جاتی ہو۔ وہاں چند کروڑ کے تحفے تو کسی گنتی میں نہیں آتے اس ایک شخص نے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ FREAK OF STORY ہے کہ ایک ایسا شخص اس ملک کا وزیراعظم بن گیا جو اپنے طور پر یونین کونسل کا ممبر بھی منتخب نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمارے کالم نگار بھائی اسے ’’پیار‘‘ سے شارٹ کٹ عزیز کہتے ہیں۔ دراصل اسے شوکت شوقین مزاج کہنا چاہئے۔
جیمز بانڈ کی طرح اسے ہر کام کرنے کا شوق تھا۔ جو شخص ایک کالی کلوٹی عورت پر بھی ڈورے ڈالنے سے باز نہ آئے اسے آپ اور کیا نام دیں گے۔ آج جب لندن کے کسی پب میں دونوں دوست شغل شب کرتے ہوں گے تو ترنگ میں آکر شوکت شوقین ضرور کہتا ہو گا۔ ’’دیکھا! میں نے کہا نہیں تھا۔ سفر طویل تاریک اور پرآشوب ہو تو زاد راہ بھی اسی حساب سے اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ ویسے اب تفتیشی صحافت کا فرض بنتا ہے کہ وہ پتہ چلائے کہ دیگران نے کس قدر تحفے اکٹھے کئے کتنے ڈیکلئر کئے اور کیا قیمت ادا کی؟ اس سے نہ صرف قارئین کی دلچسپی بڑھے گی بلکہ شوکت عزیز یہ نہیں کہہ سکے گا کہ صرف اسے ہی ’’ہدف ناوک بیدار‘‘ بنایا گیا ہے۔
میں نے اپنی کتاب ’’پہنچے ترے حضور‘‘ میں لکھا تھا کہ حج کے موقعہ پر مکہ معظمہ میں ایک پاکستانی سے ملاقات ہوئی۔ پوچھنے لگا پاکستان کا وزیراعظم کون ہے؟ کہاں سے لایا ہے۔ کیا چاہتا ہے اور بالآخر اسے کہاں جانا ہے۔ میں نے جواب دیا۔ یہ تو جہاں سے آیا ہے جلد یا بدیر وہیں چلا جائے گا لیکن حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم زندہ قوم ہیں ہم تو سنگاپور کے ہسپتالوں سے جاں بلب مریضوں کو اٹھا لاتے ہیں اور اس بدقسمت ملک کا وزیراعظم بنا دیتے ہیں۔ اگر فرق ہے تو صرف اتنا کہ معین قریشی تین ماہ تک رہا اور یہ تین سال مسلط رہا۔ شاید لوگوں کو یہ تو معلوم نہ ہو کہ وہ کون تھا لیکن یہ بات قریباً شوکت علی شاہ بھی جانتے ہیں کہ اسے کسی آقائے نعمت نے بھیجا تھا۔ اس کا ایجنڈا کیا تھا اس نے کمال ہشیاری سے نہ صرف سوپر پاور کا ایجنڈا مکمل کیا بلکہ بہتی گنگا میں اشنان کرکے اپنا الو بھی سیدھا کر گیا۔ اس تمام عرصے میں وہ باس کو بھی باور کراتا رہا کہ طویل اقتدار کے بعد جلاوطنی ایک تاریخی مجبوری ہوتی ہے۔ یورپ میں آجکل خاصی مہنگائی ہے۔ لندن میں پنشن سے تو ایک دن کا خرچہ بھی نہیں نکل سکتا اس لئے ’’فراست‘‘ سے کام لینا چاہئے۔ سفر جب طویل اور کھٹن ہو تو ’’زاد راہ‘‘ بھی اسی حساب سے اکٹھا کرنا چاہئے۔ ایک ٹی وی اینکر پرسن کو انٹرویو دیتے ہوئے جب جرنیل شاہ صاحب نے کہا کہ لندن میں مکان انہیں ایک دوست نے خرید کر دیا ہے تو ہماری
ہنسی اور حیرت یکجا ہو گئیں۔ سب پنشن یافتہ سرکاری ملازمین کی یہ متفقہ رائے ہے کہ وہ لوگ جن پر آپ نے ساری سروس کے دوران ان گنت احسانات کئے ہوں‘ وہ اپنی شکل تک دکھانے کے روادار نہیں ہوتے۔ یہ پتہ نہیں کون سر پھرا ہے جو دور اقتدار کے بعد بھی ان کا ممد اور معاون ثابت ہو رہا ہے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ شوکت عزیز کو تین سال کے عرصے میں سات سو تحائف ملے ہیں تو پھر گذشتہ اکسٹھ سالوں میں صدور‘ وزرائے اعظم اور دیگر وزراء کو تحفوں کی تعداد چالیس پچاس ہزار تک جا پہنچتی ہے۔ توشہ خانے کا ریکارڈ چیک کرنے پر پتہ چل سکتا ہے کہ کس صدر اور وزیراعظم نے کس قدر تحفے ڈیکلئر کئے اور انہیں کس بھاؤ خریدا جو تحائف جمع ہوئے ان کا کیا حشر ہوا اور انہیں کس قیمت پر نیلام کیا گیا۔ دراصل اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے دوہرا معیار مقرر کر رکھا ہے۔ اگر بڑے آدمی کو تحفہ ملے تو سارا عملہ دامن نیاز کی طرح بچھ جاتا ہے۔ اپنے ہی مقرر کردہ اداروں سے انکی ٹکہ ٹوکری قیمت لگوائی جاتی ہے اور اس طرح باس کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے۔ باالفرض محال کوئی چھوٹا اہلکار تحفے ظاہر کرے تو یہ الٹا اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ کیوں اور کس طرح اس نے تحفہ حاصل کیا۔ یادش بخیر جب میں 1988ء میں ڈی سی رحیم یار خان تھا تو شیخ زید نے دور رینج روورز مجھے اور کمشنر ملک عبدالحمید کو تحفے میں دیں۔ ملک صاحب کے منع کرنے کے باوجود میں نے انہیں توشہ خانہ بھجوا دیا اور محکمے سے درخواست کی کہ قانون کے مطابق انکی BOOK VALUE لگوائے ہم وہ گاڑیاں خریدنا چاہتے تھے ان دنوں غلام اسحاق خان عبوری سربراہ تھے۔ انہوں نے گاڑیاں ضبط کر لیں۔ الٹا ہم پر ناراض ہوئے کہ اتنا بڑا تحفہ وصول کیوں کیا۔ جب محکمے کو بتایا کہ قانون سب کیلئے برابر ہے تو کہنے لگے۔ اچھا اب ہمیں قانون بھی سکھاتے ہوا (فارسی کا محاورہ ہے۔ ہرکہ در کان نمک رفت نمک شد‘ ہمارا توشہ خانہ ایک ایسا طلسم ہوشربا ہے جس میں سونا داخل ہو تو وہ بھی کوئیلہ بن کر باہر نکلتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جس شخص نے بھی اس راز کا انکشاف کیا ہے اس نے دراصل سابق وزیراعظم پر احسان کیا ہے۔ ایک چھوٹے ISSUE نے بڑے سکینڈل دبا دئیے ہیں۔ جہاں ذاتی منفعت کیلئے سٹاک مارکیٹ کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہو۔ نج کاری کے نام پر کروڑوں کمائے گئے ہوں۔ بیک جنبش قلم بنکوں کو اربوں روپے کا منافع دلوایا گیا ہو۔ سٹیل ملز اس قیمت پر بیچی گئی ہو جہاں کٹ کٹا کر الٹا حکومت کو کچھ رقم خریدار کو دینی پڑی ہو۔ جہاں گھپلوں کی تعداد تحفوں سے بڑھ جاتی ہو۔ وہاں چند کروڑ کے تحفے تو کسی گنتی میں نہیں آتے اس ایک شخص نے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ FREAK OF STORY ہے کہ ایک ایسا شخص اس ملک کا وزیراعظم بن گیا جو اپنے طور پر یونین کونسل کا ممبر بھی منتخب نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمارے کالم نگار بھائی اسے ’’پیار‘‘ سے شارٹ کٹ عزیز کہتے ہیں۔ دراصل اسے شوکت شوقین مزاج کہنا چاہئے۔
جیمز بانڈ کی طرح اسے ہر کام کرنے کا شوق تھا۔ جو شخص ایک کالی کلوٹی عورت پر بھی ڈورے ڈالنے سے باز نہ آئے اسے آپ اور کیا نام دیں گے۔ آج جب لندن کے کسی پب میں دونوں دوست شغل شب کرتے ہوں گے تو ترنگ میں آکر شوکت شوقین ضرور کہتا ہو گا۔ ’’دیکھا! میں نے کہا نہیں تھا۔ سفر طویل تاریک اور پرآشوب ہو تو زاد راہ بھی اسی حساب سے اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ ویسے اب تفتیشی صحافت کا فرض بنتا ہے کہ وہ پتہ چلائے کہ دیگران نے کس قدر تحفے اکٹھے کئے کتنے ڈیکلئر کئے اور کیا قیمت ادا کی؟ اس سے نہ صرف قارئین کی دلچسپی بڑھے گی بلکہ شوکت عزیز یہ نہیں کہہ سکے گا کہ صرف اسے ہی ’’ہدف ناوک بیدار‘‘ بنایا گیا ہے۔