سب سے پہلے امریکہ‘جنگیں ختم: ٹرمپ نے حلف اٹھالیا

Jan 22, 2025

اداریہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدے کا حلف اٹھالیا۔ ان سے امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے حلف لیا۔ ٹرمپ امریکی تاریخ کے 47 ویں صدر بن گئے۔ اس موقع پر سابق صدر جوبائیڈن نے انہیں آگے بڑھ کر مبارکباد دی۔ صدر ٹرمپ کی اہلیہ ان کے ہمراہ تھیں۔ روایت کے مطابق پہلے نومنتخب نائب صدر جے ڈی وینس نے حلف اٹھایا۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریب سے اپنے خطاب میں سابق صدور کا نام لے کر اور دوسرے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا میری ترجیح امریکہ کو قابل فخر ملک بنانا ہے۔سب سے پہلے امریکہ ہے۔جس کے سنہری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہم اپنی خود مختاری دوبارہ حاصل کریں گے۔ ہمیں چیلنجز کا سامنا ہے۔ اب امریکہ ترقی کرے گا۔سابق حکومتیں داخلی مسائل حل نہیں کر سکیں۔ لیکن دنیا بھر میں مہنگی مہمات کرتی رہیں۔ میری اولین ترجیح ایک ایسا ملک قائم کرنا ہے جو آزاد اور مضبوط ہو۔ مجھے خدا نے اس لئے محفوظ رکھا تاکہ امریکہ کو عظیم ملک بناؤں۔ میں اور میری انتظامیہ ملک کی سرحدوں کا تحفظ یقینی بنائے گی۔ہم لاکھوں غیرقانونی تارکین وطن اور جرائم پیشہ افراد کو واپس بھیجیں گے۔ منظم جرائم کے گروہوں کو غیر ملکی دہشتگرد قرار دیں گے۔انہوں نے کہا کہ جنگیں ختم، امریکہ امن کا داعی بنے گا۔خلیج میکسیکو اب خلیج امریکہ ہو گا۔ میں امن اور اتحاد قائم کرنے والا شخص کہلانا چاہتا ہوں۔ ہم پانامہ کینال واپس لیں گے۔
صدر ٹرمپ اپنے لوگوں سے جو وعدے کر کے آئے وہ ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے جس پر آتے ہی ان کی طرف سے پرجوش طریقے سے عمل شروع ہو گیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے ملک اور عوام کے مفادات کے لیے کام کرنا ہے جیسا کہ انہوں نے ’’سب سے پہلے امریکہ ‘‘کو سلوگن بنایا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کے سنہرے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ ہمارے سیاست دانوں کے لیے بھی پیغام ہے کہ وہ پاکستان کے مفادات کو ترجیحات میں رکھیں۔
امریکہ چونکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے لہٰذا وہاں رجیم چینج کے عالمی سطح پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔عالمی امن،دنیا کے بڑے تنازعات اور پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ کی پالیسی کیا ہوگی؟ اس پر تجزیہ کی ضرورت ہے۔
ٹرمپ کے گزشتہ صدارتی دور میں امریکہ نے نہ صرف کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑی تھی بلکہ افغانستان میں جاری جنگ کو بھی سمیٹ کر انخلا کی طرف آئے تھے۔اس عمل کے دوران امریکہ میں انتخابات ہوئے ان کی جگہ جو بائیڈن صدر بنے تو مجبوراََ ان کو ٹرمپ کی افغانستان سے انخلاء کی پالیسی پر عمل کرنا پڑا۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے آغاز میں کہا تھا کہ وہ صدر ہوتے تو یوکرائین کی روس کے ساتھ جنگ نہ ہوتی اور نہ ہی حماس اور اسرائیل لڑائی کی طرف جاتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر کا حلف اٹھانے سے قبل ان کے مشرق وسطیٰ  کے لیے خصوصی نمائندے سٹیون وکٹوف نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی۔انہیں جنگ بندی پر قائل کیا۔سٹیون کے توسط سے حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی اور یرغمالیوں و قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہونے کے بعد 19 جنوری سے اس پر عمل بھی شروع ہو گیا ہے۔ٹرمپ کے اگلے چار سالہ دور میں عالمی امن مستحکم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔فلسطین اسرائیل جنگ تو رک گئی ہے۔ ٹرمپ مشرق وسطیٰ  میں مسئلہ فلسطین اور جنوبی ایشیا میں مسئلہ کشمیر حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو عالمی امن میں مزید استحکام کی امید کی جا سکتی ہے۔دنیا کے یہی دو بڑے تنازعات عالمی امن کے عدم استحکام کا باعث ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے سابق دور میں صدر ٹرمپ کی پالیسی کچھ عرصہ کے لیے سخت تھی۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری 2018 ء میں ٹویٹ کے ذریعے پاکستان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ"امریکہ نے گزشتہ 15 سالوں میں پاکستان کو بے وقوفی سے 33 ارب ڈالر سے زیادہ امداد دی، اور اس کے بدلے ہمیں جھوٹ اور دھوکہ ملا۔ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں یہ بھی کہا کہ پاکستان ہمیں بے وقوف سمجھتا ہے  اور ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے جن کا ہم افغانستان میں شکار کر رہے ہیں۔ اب مزید نہیں!" 33 ارب ڈالر امداد کا دعویٰ ،ٹرمپ کا اشارہ اس مالی امداد کی طرف تھا جو امریکہ نے پاکستان کو 2002 سے 2017ء تک فوجی اور اقتصادی تعاون کی مد میں فراہم کی (یہ امداد 33 ارب نہیں بلکہ 22 ارب ڈالر تھی)۔ یہ امداد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے تعاون کے لیے دی گئی تھی۔پاکستان نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کیا اور کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے۔ پاکستانی حکومت نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کو پاکستان کی قربانیوں کا احترام کرنا چاہیے۔ ہم نے 70 ہزار سے زائد جانیں گنوائی ہیں اور ہماری معیشت کو 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا ہے۔امریکہ کی جنگ میں شامل ہو کر اپنی سرزمین پر دہشت گردی کو دعوت دی۔پاکستان کے اس موقف کے بعد صدر ٹرمپ نے جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے  اسے تسلیم کیا اور ان کے رویے میں واضح تبدیلی اور نرمی دیکھنے میں آئی،جس سے دونوں ممالک کے مابین تلخی ختم ہو گئی۔
صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا کے 47 ویں صدر کے طور پر عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے نئے امریکی صدر کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے ایکس پر اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ میں ان کے ساتھ مل کر امریکا اور پاکستان کی دیرینہ شراکت داری کو مزید مستحکم کرنے کا متمنی ہوں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ برسوں سے یہ دو عظیم ملک اپنے لوگوں کے لیے خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کررہے ہیں اور ہم یہ تعاون مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے۔ امید ہے کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان اور امریکہ کے مابین دوستی کی پالیسی جہاں چھوڑی تھی وہیں سے آگے بڑھائیں گے۔
سابق صدر جو بائیڈن کی طرف سے سینکڑوں قیدیوں کو معافی دے دی گئی۔ عافیہ صدیقی کے حوالے سے پاکستانی امید کرتے تھے کہ ان کی سزا بھی معاف کر دی جائے گی۔انہیں جرم بے گناہی میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔جو بائیڈن نے پاکستان ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کو بھی مایوس کیا۔امید کی جاتی ہے کہ صدر ٹرمپ عافیہ صدیقی کی سزا کی معافی کا اعلان جلد کر دیں گے۔

مزیدخبریں