اِنسانی اسمگلنگ کی روک تھام .....

Jan 22, 2025

سید مجتبیٰ رضوان

سید مجتبی رضوان.. 
انسانی اسمگلنگ جدید غلامی کی ایک شکل ہے۔ یہ وہ جرم ہے جس میں ایک شخص اپنے مفاد کے لئے پیسے حاصل کرنے کے لئے دوسرے شخص کا استحصال کرتا ہے۔ انسانی اسمگلر متاثرین پر قابو پانے کے لئے ان کی نازک صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اکثر، وہ جسمانی یا نفسیاتی تشدد استعمال کرتے ہیں اور متاثرہ شخص کی آزادی محدود کر دیتے ہیں۔ لیکن وہ اہنے متاثرین کو معاشی انحصاری رہائش، کھانے، دستاویزات کے لئے جیسی صورتحال میں بھی مسدود کر سکتے ہیں، اور یا بس نازک صورتحال کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اسمگلرز مجرمانہ نیٹ ورک میں کام کر سکتے ہیں لیکن اکیلے بھی عمل کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی شخص انسانی اسمگلنگ کا شکار ہو سکتا ہے کسی بھی قومیت کے افراد۔ آپ بھی متاثرہ شخص ہو سکتے یا بن سکتے ہیں ..صدر آصف علی زرداری نے اپنے بیان اِنسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے موثر اور دور رس اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ انسانی سمگلنگ کے خاتمے کیلئے تمام ادارے فعال کردار ادا کریں،انسانی سمگلنگ کا مکروہ دھندہ چلا کر ملکی ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف انتہائی سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ملک میں انسانی سمگلنگ کے خاتمے کیلئے اٹھا ئےگئےاقدامات کے حوالے سے جائزہ اجلاس ہوا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ انسانی سمگلنگ کے خاتمے کیلئےتمام ادارے فعال کردار ادا کریں،انسانی سمگلنگ کا مکروہ دھندہ چلا کر ملکی ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف انتہائی سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔وزیراعظم نے ایف ا?ئی اے میں افرادی قوت کی کمی کو فوری طور پر پورا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ ہوائی اڈوں پر بیرون ملک سفر کرنیوالوں کی سکریننگ کا معیاری نظام قائم کیا جائے۔وزیراعظم نے وزارت اطلاعات و نشریات کو غیر قانونی بیرون ملک سفر اور انسانی سمگلنگ کے بارے میں مو?ثر ا?گاہی مہم چلانے کی ہدایت کی۔وزیراعظم نے ایف ا?ئی اے کو بیرون ملک انسانی سمگلنگ کا مکروہ دھندہ چلانے والے انتہائی مطلوب سمگلروں کی حوالگی کیلئےانٹرپول سے تعاون حاصل کرنے کی ہدایت کی۔اجلاس میں انسانی سمگلروں کے خلاف اب تک اٹھائےگئے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کو بتایاگیاکہ جون 2023 اور دسمبر 2024 کے انسانی سمگلنگ کے واقعات میں متعدد انسانی سمگلر گرفتار ہو چکے ہیں، متعدد سہولت کار سرکاری اہلکار برطرف ہو چکے ہیں اور کئی تادیبی کاروائی کا سامنا کر رہے ہیں، انسانی سمگلنگ میں ملوث سرکاری اہلکاروں کے خلاف تعزیری اقدامات لئےجا رہے ہیں۔ بتایاگیاکہ انسانی سمگلروں کے 500 ملین روپے سے زائد کے اثاثے ضبط ہو چکے ہیں اور مزید ضبط کرنے کا عمل تیزی سے جاری ہے، انسانی سمگلروں کے استغاثہ کے عمل کیلئے خصوصی پراسیکیوٹر تعینات ہو چکے ہیں۔اجلاس میں وفاقی وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران شریک تھے۔انسانی اسمگلنگ بہت بڑا انسانی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ ایشیا ءسے تعلق رکھنے والے بیشتر ممالک اس مسئلے سے دوچار ہیں۔ جبکہ پاکستان بھی انہی ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ حال ہی میں لیبیا سے غیر قانونی طور پر یورپ (یونان) جانے والے پاکستانیوں کی کشتی سمندر میں ڈوبنے کی خبر آئی تو پنجاب کے بہت سے شہروں میں کہرام مچ گیا۔ یہ شہر سیالکوٹ، اوکاڑہ، گوجرانوالہ، گجرات، فیصل آباد اور منڈی بہاﺅالدین تھے جہاں سے اچھے مستقبل کی خواہش لیے بہت سے نوجوان انسانی اسمگلروں کے ذریعے لیبیا پہنچے۔ لیبیا سے انہیں غیر قانونی طور پر سمندر کے راستے انسانی اسمگلروں نے یونان پہنچانا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ان کی کشتی گہرے سمندر میں حادثے کا شکار ہو گئی جس سے ہلاکتیں ہوئیں۔ ہلاک ہونے والے نوجوانوں نے یورپ جانے کے لیے انسانی اسمگلروں کو 85لاکھ روپے بھی دئیے تھے۔ اس اندوہناک واقعہ کا وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے بھی نوٹس لیا۔ فوری طور پر پرائم منسٹر سیکرٹریٹ میں ہنگامی میٹنگ طلب کر لی جس میں وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور دیگر اعلیٰ حکومتی ارکان نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے انسانی اسمگلروں کے لیے سخت قانون سازی، ان کی سرکوبی اور عبرت کا نشان بنانے جیسی ہدایات جاری کیں۔انسانی اسمگلنگ درحقیقت غلامی کی جدید شکل ہے اور یہ مکروہ دھندہ دہائیوں سے جاری ہے۔ یہ وہ جرم ہے جس میں انسانی اسمگلر اپنے مفاد کی خاطر پیسہ حاصل کرنے کے لیے دوسروں کا استحصال کرتے ہیں۔ اچھے مستقبل کے لیے انہیں یورپ جانے کا جھانسہ دیا جاتا ہے۔ اس کے عوض ان سے لاکھوں روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ یہ رقم متاثرہ افراد کے اہلخانہ قرض اٹھا کر، گھر کے زیورات بیچ کر انسانی اسمگلروں کو ادا کرتے ہیں۔ متاثرہ افراد یورپ تو نہیں پہنچ پاتے، بدلے میں ذلت، رسوائی اور موت ملتی ہے۔
2024ءجاتے جاتے یہ سانحہ دے گیا۔ کشتی حادثے میں نوجوانوں کی ہلاکت سے ہر پاکستانی دکھی اورصدمے سے دوچار ہوا۔ یہ غیر قانونی تارکین وطن لیبیا کے علاقے تبروک سے یونان جا رہے تھے لیکن تعداد زیادہ ہونے کے باعث کشتی حادثے کا شکار ہو گئی۔ کشتی ڈوبنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے تسلسل کے ساتھ ایسے افسوس ناک واقعات رونما ہو رہے ہیں جن میں غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں کافی افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جون 2023ءمیں بھی یونان کے ساحلی مقام پر تارکین وطن کی کشتی ڈوبی، جس کے نتیجے میں درجنوںپاکستانی اپنی جان گنوا بیٹھے۔ جبکہ اس سے قبل 2023ئی کے اوائل میں اٹلی کے ساحل پر کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں پاکستانیوں سمیت 100فراد جاں بحق ہوئے۔
حالیہ دنوں میں ملک میں امن وامان کی صورت حال بہت خراب رہی۔ جس سے غربت اور بے روزگاری میں اَضافہ ہوا۔ اس کے باعث بیرون ملک جانے کے رجحان میں اضافہ ہوااور نوجوانوں نے حصول روزگار اور بہتر مستقبل کے لیے یورپ جانے کا قصد کیا۔ اس کے لیے اپنی جانیں تک خطرے میں ڈال دیں۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق گجرات، جہلم، بہاولپور، منڈی بہا?الدین اور پنجاب کے دیگر شہروں سے تھا۔ یہ نوجوان انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھے جو انہیں بہتر مستقبل کے لئے باہر جانے کی ترغیب دیتے اور سبز باغ دکھاتے۔ بہتر مستقبل کا خواب نوجوانوں کو غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے پر اکساتا اور وہ باہر جانے کے لیے ہر خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہو جاتے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس گھنا?نے نیٹ ورک سے ایک ہزار سے زیادہ کریمنل منسلک ہیں جو یہ غیر قانونی کاروبار چلا رہے ہیں۔ یہ کاروبار اب تک ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ جرائم پیشہ انسانی اسمگلرز سادہ لوح اور معصوم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسا کر بھاری رقوم بٹورتے ہیں۔ تاہم ان میںسے کچھ خوش قسمت ہی اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جبکہ بیشتر سمندری لہروں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یا انہیں گرفتار کر کے ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی اصل تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ چند سال کے دوران 4لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کو مختلف ممالک سے پاکستان ڈی پورٹ کیا گیا۔ انسانی اسمگلر ایک ایسا ظالم مافیا ہے جو غریب افراد کو جھوٹے اور سنہری خواب دکھاتا ہے اور وہ جب پوری طرح جال میں پھنس جاتے ہیں تو ان سے یورپ کے نام پر بڑی بڑی رقمیںبٹوری جاتی ہیں۔ یہ کیسی بات ہے کہ یہ افراد پیسے دے کر انسانی اسمگلرز سے اپنی موت خریدتے ہیں۔
بیرون ملک جانے کی غیر قانونی کوشش میں کنٹینرز میں دم گھٹنے سے ہلاک ہونے والے پاکستانی نوجوانوں کی داستانیں بھی اتنی المناک ہیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے، UNDPنے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو مستقبل قریب میں غیر قانونی طور پر یورپ جانے کا رجحان وبائ کی صورت اختیار کر جائے گا۔ انسانی اسمگلنگ سے متعلق بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ سے جہاں ایک طرف عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے، وہاں دوسری طرف غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والوں کی بڑی تعداد اپنی قیمتی جانیں گنوا رہی ہے۔ جو یقینا ایک لمحہ فکریہ ہے۔
 یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر انسانی اسمگلنگ میں ملوث انسانی اسمگلرروں اور ان کے ایجنٹوں کے نام ECLمیں ڈالے گئے ہیں۔ جبکہ اسمگلرز اورایجنٹوں کی جائیدادیں ضبط کر نے کے احکامات بھی جاری کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پہلی بار انسانی اسمگلرز کی معاونت کے جرم میں ملوث ایف آئی اے کے 35افسران اور اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ جو انسانی اسمگلروں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے ایک سخت پیغام ہے۔ جس سے نہ صرف انسانی اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات بھی رونما نہیں ہوں گے۔

مزیدخبریں