کتنے آئے کتنے مر گئے
باپ زندہ پھر رہا ہے اور بیٹے مر گئے
بوڑھے برگد کے اچانک کتنے حصے مر گئے
تھا محبت کا وظیفہ اس لیے شاداب تھے
آنکھ سوئی باغباں کی اور پودے مر گئے
ذہن و دل میں خوف تھا یہ سانس رکنی ہے ضرور
ڈر کے قیدی دیکھیے پھر ڈرتے ڈرتے مر گئے
دے رہا ہے مجھ کو وہ رزقِ سخن آغاز سے
ورنہ میرے جیسے کتنے آئے کتنے مر گئے
اک طرف تھی عیش و عشرت کی فضا میراث میں
اور کچھ اسلاف کے غم ڈھوتے ڈھوتے مر گئے
اف درندوں کی بقا معصوم جانیں لے اڑی
کچھ شکم میں کچھ زمیں پر پاوں دھرتے مر گئے
خودفریبی سے مزین زندگی کے روزوشب
بدنصیبی جھوٹ کہتے جھوٹ سنتے مر گئے
داستانِ عشق میں ماجد نیا کردار ہے
مجھ سے پہلے فیض و جالب لکھتے لکھتے مر گئے
(ماجد جہانگیر مرزا )