قصہ مری سانحہ انکوائری رپورٹ کا…!
مری سانحہ کی تحقیقاتی رپورٹ آنے تک مختلف چہ مگوئیاںگردش کرتی رہیں جب تک کمیٹی نے حتمی رپورٹ سردار عثمان بزادر کے حوالے نہیں کر دی افواہوں کا بازار گرم رہا۔ وزیر اعلیٰ نے ایک پریس کانفرنس میں رپورٹ پیش کی تمام افواہیں دم تاڑ گئیں اور معلوم ہوا کہ درویش منش وزیر اعلیٰ عثمان بزادر اپنے الفاظ اور لہجہ کے نرم گفتار ہیں مگر کردار اور قوت فیصلہ انکی فولاد کی طرح مظبوط ہے۔ سب سے پہلے یہ افواہ گردش کرتی رہی کہ رپورٹ میں انتظامیہ کو کچھ نہیں کہا جائیگا اور تمام ملبہ محکمہ ہائی وے، جنگلات اور ریسکیو 1122 پر ڈال دیا جائیگا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ اگر انتظامیہ پر الزام آتا ہے بھی تو کمشنر راولپنڈی گلزار حسین شاہ کو کچھ نہیں کہا جائے گا کیونکہ وہ رنگ روڈ منصوبہ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں اور یہ منصوبہ چونکہ پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے لہذا حکومت اس نازک موڑ پر اگر کمشنر راولپنڈی پر الزام آئے گا بھی تو انکو بچا لے گی۔ اور اسی دوران گلزار حسین شاہ کی راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کے اضافی چارج کے مدت ختم ہو گئی مگر اگلے ہی دن دوبارہ اضافی چارج کے آڈر آئے گے تو افواہ ساز فیکٹریوں کو مزید تنقید کیلئے مواد میسر آ گیا ہے۔ میڈیا پر یہ باتیں گردش کرنا شروع ہوگئیں گلزار حسین شاہ کو مری کے تحقیقاتی کمیٹی نے کلین چٹ دے دی ہے۔ اس دوران یہ افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں کہ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد انتظامیہ کے وکیل بن گے ہیں اور انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو یقین دلایا ہے کہ سانحہ مری میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کا کوئی قصور نہیں ہے اور کہا جانے لگا کہ وزیر داخلہ یہ باتیں حکومت کے میگا پراجیکٹس - رنگ روڈ اور لئی ایکسپریس وے - کے بروقت آغاز کیلئے کر رہے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی میگا پراجیکٹ کیلئے ٹیم بہت اہم ہے اور جب یہ منصوبے اپنے سنگ بنیاد کے قریب ہیں تو ان حالات میں ٹیم کا کپتان بدلنا مشکل ہو سکتا یے۔
یہ سب افواہیں دم توڑ گئیں۔ ثابت ہوگیا کہ وزیر اعلی عثمان بزدار کی بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے بغیر کسی خوف اور گائیڈ لائن کے مکمل آزادی کے ساتھ اپنا کام کیا ہے۔ اس تحقیقاتی کمیٹی کی روشنی میں جن 15 افسران کو ہٹایا گیا ہے ان میں سر فہرست کمشنر راولپنڈی گلزار حسین شاہ ہیں۔ اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ عثمان بزادر نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی،سی پی او اور اے سی مری کو بھی عہدوں سے ہٹا کر مزید تحقیقات کے احکامات جاری کئے ہیں۔ کمشنر راولپنڈی ڈویژن کو عہدے سے ہٹاکر وفاقی حکومت کو بھیج دیاگیا ہے اورانہیں معطل کرنے کی سفارش بھی کی گئی۔ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو عہدے سے ہٹا کر ان کی خدمات وفاقی حکومت کے سپرد کردی گئی ہیں اور انہیں معطل کرنے اورانضباطی کارروائی کی سفارش بھی کی گئی ہے۔اے سی مری کو معطل کر کے انضباطی کارروائی کاحکم دیاگیا ہے۔سی پی او راولپنڈی کو عہدے سے ہٹا کر ان کی خدمات وفاقی حکومت کے سپرد کرکے معطل کرنے اورانضباطی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔اے ایس پی مری کو عہدے سے ہٹا کر ان کی خدمات بھی وفاقی حکومت کے سپرد کردی گئی ہے۔انہیں معطل کرنے اورانضباطی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔سی ٹی او راولپنڈی،ڈی ایس پی ٹریفک،ایس ای ہائی ویز سرکل ٹو راولپنڈی،ایکسین ہائی راولپنڈی،ایکسین ہائی وے میکینکل راولپنڈی،ایس ڈی او ہائی وے میکینکل مری،ڈویژنل فارسٹ آفیسر مری، ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر مری،انچار ج مری ریسکیو 1122،ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے پنجاب کو بھی معطل کردیاگیا ہے اوران کے خلاف انضباطی کارروائی کا حکم دے دیاگیا ہے۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ مری میں ہونے والا سانحہ ہر لحاظ سے افسوسناک اورانتہائی تکلیف دہ ہے۔کوئی ذی روح ایسا نہیں جس نے اس حادثے کی شدت کو محسوس نہ کیا ہو۔ہم پوری قوم کے ساتھ سانحہ مری کے متاثرین کے دکھ میں شریک ہیں۔وزیر اعلیٰ عثمان بزادر نے درست کہا کہ تحقیقاتی کمیٹی نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ کام کیا ہے۔ کمیٹی نے اسلام آباد میں پنجاب ہاؤس آتے ہی چند گھنٹے قیام کے بعد پنجاب ہاؤس مری کا رخت سفر باندھا اور پھر تین سے چار دن قیام کیا اور وہاں پر جائے وقوع کا جائزہ لیا، مقامی لوگوں سے رابطہ کیا اور تمام تحصیل سطح کے افسران کے بیانات قلمبند کئے۔ مری میں کمیٹی نے مکمل خاموشی اور توجہ کے ساتھ کام کیا۔ پھر یہ کمیٹی اسلام آباد آئی جہاں پر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے بیانات قلمبند کئے گے۔