سیاحوں کی تربیت بھی کیجیئے
سانحہ مری پر بہت کچھ لکھا اور سنایا گیا 'لیکن اصل حقائق کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی ۔ اپنے ایک دوست تسنیم چیمہ کبھی کبھار میرے گھر کو شرف عزت بخشتے ہیں اسی جذبہ کے تحت وہ گذشتہ روز میرے گھر آئے ہم دونوں دیوان غالب سے ایک دو غزلیں پڑھ کر اپنی ادبی پیاس بجھاتے ہیں ۔ سانحہ مری پر بات کرتے ہوئے تسنیم چیمہ نے نہایت ہی اہم نکتہ اٹھایا۔انہوں نے کہا کہ سانحہ مری پر بہت کچھ لکھا گیا ہے کہ کوئی کسی کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے اور کوئی کسی کو … سانحہ مری پر میڈیا نے جس طرف توجہ دلانی تھی وہ نہیں دلائی گئی ۔ وہ ہے سیاحوں کی تربیت ۔ اس سے قبل ایک دو واقعات قارئین کی نذر ہیں ۔ سحودی دارالحکومت الریاض میں قیام کے دوران لندن کی سیاحت کا شوق پیدا ہوا ۔ چنانچہ 27 اپریل 1986 کو میں الریاض سے براستہ دمشق لندن ہیتھرو ائیرپورٹ پر اترا۔لندن میں برفباری ہو رہی تھی ہیتھرو ائیرپورٹ پر مختصر سوالات کے بعد امیگریشن آفیسر گوری نے دو ماہ کا سیاحتی ویزہ دیا ۔ اپنے میزبان لاہور کے مظہور الحق(مرحوم)کیساتھ ان کے گھر منتقل ہو گیا ۔ دو چار دن تو انہوں نے لندن کی سیر کروائی ۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ بھائی صاحب ہم نے اپنی ڈیوٹی بھی دینا ہوتی ہے ۔ آپ سیر کرنے آئے ہیں ۔ یہ لندن کا نقشہ ہے یہ ٹیوب اور بس کے ایک ہفتے کا پاس ہے ۔ ان کا دیا ہوا پاس ابھی تک میں نے نشانی کے طور پر سنبھالا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آپ لندن میں گم نہیں ہونگے ۔ا گر گم ہو گئے تو پولیس گھر چھوڑ کر جائیگی ۔ یہ فلاحی ریاست ہے 'یہاں ایک مضبوط نظام ہے ہر محکمہ ذمہ دار ہے ۔میں نے سوچا کہ میزبان کی بات درست اور حقائق پر مبنی ہے ۔ اس لئے غصہ کرنے کی بجائے اسے تسلیم کیا۔ چنانچہ ان سے آزاد ہو کر جو لندن کو قریب سے دیکھا ان کی موجودگی میں کئی راز پوشیدہ
رہ جاتے ۔ کیونکہ وہ ایک مذہب پرست اور میں
غالب کا شیدائی آزاد خیال ۔ دوسرا واقعہ وائس آف امریکہ سے سنا جس کا عنوان تھا(گو بیگ)اس عنوان کے تحت سامعین کو سمجھایا گیا کہ کوئی بھی ہنگامی حالت سے پہلے ایک بیگ تیار رکھیں ۔ جس میں تقریبا31 ضروری اشیا ہوں ۔جب کسی آفت طوفان کی صورت میں گھر کو خالی کرنا پڑے تو(گو بیگ)آپ کیساتھ جائیگا۔ لیکن افسوس اس قسم کا ہمارے ہاں کوئی مشورہ نہیں دیا جاتا۔ حکومتی محکمے اور عوام دونوں غیر سنجیدہ ہیں ۔ بے شعورے شہری کو ان کی زندگی کی حفاظت کیلئے آگاہی دینا سرکار کے محکموں کا کام مگر معلوم نہیں ان کی ڈیوٹی کیا ہے ۔ سانحہ مری پر پوری قوم سوگوار ہے ۔قصور چاہے کسی کا بھی ہو نقصان تو انسانیت کا ہوا۔ کویت اور عراق کی جنگ کے دوران الائیڈ فورسز اور عراق کے ٹینک آمنے سامنے تھے ۔اس پر بی بی سی نے ایک خوبصورت جملہ کہا کہ ہزاروں ٹینک اس وقت آمنے سامنے ہیں ۔ ٹینک کسی کے بھی آگے بڑھیں گھر تو انسانیت کا جلتا ہے ۔ سانحہ مری میں جو ہوا اسے الفاظ میں لکھنے سے دل گھبراتا ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب قیمتوں کو یورپ کے برابر کر کے اپنی خواہش پوری کر لیجیئے۔آپ کی ترغیب کی وجہ سے اپنے ساتھ ڈیڑھ سال کا بچہ لانیوالی سیاحتی فیملی کی تربیت کا انتظام بھی کیجیئے ۔اس کیلئے سیاحتی اتھارٹی کا قیام ضروری ہے ۔ سیاحتی کٹ گاڑی میں رکھوائیں ۔ سیاحتی علاقوں کا نقشہ جات ساتھ ہو۔ ہنگامی حالت میں جان بچانے کا سبق پکا کروائیں ۔ مری اور دیگر سیاحتی مقامات پر ہوٹلوں کی چیکنگ‘کمروں اور کھانے کا ریٹ حکومت کی طرف سے منظور شدہ واضح طور پر آویزاں ہونا چاہیے ۔ اچھی سڑکیں 'تفصیلی آگاہی 'پمفلٹ سیاحوں میں تقسیم کئے جائیں ۔ حقیقت ہے کہ جہاں حکومتی ادارے ناکام 'غیر سنجیدہ اور عوام کے تحفظ میں دلچسپی نہیں رکھتے اس کے برعکس وہاں شہری بھی بے شعوری کا مظاہرہ کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ہمارے عوام ہر وہ کام کرنا چاہتے ہیں
جس سے انہیں روکا جائے ۔ اس کیلئے لڑائی جھگڑا اور اعلی افسران کے فون کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ مسٹر فواد چوہدری گاڑیاں تو گنتے رہے اور اسے اپنی حکومت کی اچھی کارکردگی میں ڈالتے رہے ۔ لیکن ان کے خیال میں یہ نہیں آیا کہ ایک لاکھ 65 ہزار گاڑیوں میں برف باری دیکھنے کے شوقین سیاحوں کی برفانی آفت کی صورت میں جانیں کیسے بچائی جائینگی ۔ ان کی بروقت مدد اور تحفظ کیلئے کیا اقدامات کئے گئے ۔ خدارا آسمان سے اتر کر زمین پر حکومت کرنیکا سلیقہ سیکھیں ۔ اس موقع پر برف میں پھنسے ہوئے لاتعداد سیاحوں کو ریسکیو کرنے پر فوج اور مری کے مقامی درد دل رکھنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری ہے ۔جنہوں نے انسانی ہمدردی کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں اور بچوں 'عورتوں کو اپنے گھروں میں پناہ دیکر اخوت اسلامی کا بہترین نمونہ پیش کیا۔