کیا یہ مسلمانوں کاموضوع نہیںتھا؟
نامور طبیب اور مفکر ابن سینا یکتائے روزگار ریاضی دان،نامورطبیب ،عظیم فلسفی اور مفکرتھا ۔ارسطوکے فلسفے پر گہری نظر رکھتا تھا۔بعض مورخین کے بقول ابن سینا نے 100سے زائدکتابیں لکھیں جن میں طب کے موضوع پر القانون ،فلسفے پر الشفاء ،منطق پر الاشارات، اور مابعد الطبیعات وغیرہ شامل ہیں۔ان کتابوں کا یورپ کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔ہمدان میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوا۔علم کے اس سمندر نے نظام معیشت کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ اسکے بعد 12ویں صدی کے آغاز پرغرناطہ کے مقام پر اپنے وقت کا بہت بڑا فلسفی ابن طفیل پیداہوا۔تحصیل علم کے بعد طبابت کاپیشہ اختیارکیا۔ قاضی کے عہدے پر بھی فائز ہوا اور اسکے کچھ عرصے بعد وزیر بنا اورمراکش میں وفات پائی۔طبیعات ،مابعدا لطبیعات اور فلسفے پر متعدد کتب تصنیف کیں۔اسکی صرف ایک کتاب جو میڈیکل سائنس کے متعلق تھی زمانے کی دست بردسے محفوظ رہی 1671ء میں ایڈورڈ پوکوک نے اس کا لاطینی میں ترجمہ کیا۔فرانسیسی،جرمن ،انگریزی ،ہسپانوی ، ولندیزی اور اردو میں بھی اسکے تراجم ہوچکے ہیں۔ بہت کچھ لکھا ابن طفیل نے۔بہت سی زبانوں میں اس کی کتب کے تراجم ہوئے یہ بھی بحر علوم تھا مگرنظام معیشت اس کا بھی موضوع نہ بن سکا۔پھر تقریبا نصف صدی بعد اندلس میں ایک اور بڑا دانشور اور فلسفی ابن ماجہ پیداہوا۔ فلسفہ ،طب ،کیمیا،ہیئت اورموسیقی پر متعدد کتب تصنیف کیں جن کے اب لاطینی اور عبرانی تراجم یورپ کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔جوانی میں کسی حاسد نے زہر دے دیا۔ ابن ماجہ کاقلم بھی اپنے زمانے میں نظام معیشت کے متعلق کچھ لکھنے سے قاصر رہا۔اسکے بعدقرطبہ میںفلسفی ،ریاضی دان ،ماہر علم فلکیات ،غرضیکہ ایک بحر علوم ابن رشدپیداہوا۔ مشہور عالموں سے دینیات ،فلسفہ ،قانون علم الحساب اور علم فلکیات کی تعلیم حاصل۔اشبیلیہ اور قرطبہ کاقاضی رہا۔ہسپانوی خلیفہ المنصورنے کفر کافتوے عائد کرکے اسکی تمام کتابیں جلادیں اوراسے نظربند کردیا۔چند ماہ کی نظر بندی کے بعد مراکش چلاگیااوروہیں وفات پائی۔ ارسطو کے فلسفے پر نہایت سیرحاصل شرحیں لکھیں جن کے لاطینی اور عربی کے علاوہ یورپ کی مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے ۔ابن رشد کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ انسان کاذہن محض ایک طرح کی صلاحیت ہے جو خارجی کائنات سے ذہانت حاصل کرکے اسے عملی شکل دیتا ہے۔انسان از خودیاپیدائشی طورپر ذہین نہیں ہوتا۔ تمام انسانوں میں ذہانت مشترک ہے یوںتوابن رشد نے قانون،منطق،قواعدزبان عربی،علم فلکیات اور طب پر متعددکتابیں لکھی ہیں،مگر اسکی وہ تصنیفات زیادہ مقبول ہوئی ہیں جوارسطو کی مابعد الطبیعیات کی وضاحت اور تشریح کے سلسلے میں ہیں۔اسکی تعلیمات نے یورپ کی تقدیر بدل کررکھ دی ،نظام معیشت کے متعلق اسکی بھی کوئی تصنیف نہیں ۔پھرتیونس میں معروف مورخ،فقیہ،فلسفی اور ماہر عمرانیات علامہ ابن خلدون پیداہوا ۔ تعلیم سے فراغت کے بعدتیونس کے سلطان کا وزیر مقررہوا۔لیکن درباری سازشوں سے تنگ آکر حاکم غرناطہ کے پاس چلاگیا۔یہ سرزمین بھی راس نہ آئی تو مصرآگیا۔اورالازھرمیں درس وتدریس پر مامور ہوا۔ مصر میں اسکو مالکی فقہ کا منصب قضا بھی تفویض کیا گیا۔ اسی عہدے پر وفات پائی ۔ابن خلدون کو تاریخ اور عمرانیات کابانی تصورکیاجاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ مقدمہ فی التاریخ ہے جو "مقدمہ ابن خلدون" کے نام سے مشہورہے ۔یہ تاریخ ،سیاست ،عمرانیات ، اور ادبیات کاگراں مایہ خزانہ ہے۔ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں اقتصادیات کوموضوع بنایا مگر کلی طورپر نہیں ۔اسکی بڑی پہچان ہمیشہ ایک ماہر عمرانیات کے طور پر رہی اورپوری دنیا اس کو اس حوالے سے مستند اور معتبرمانتی ہے۔تاہم علمی اورعملی طورپر بصرہ کا ابن الہیشم (ALHATHEM) وہ فلسفی تھاجس نے دسویں اور گیارھویں صدی میں دنیا کو متاثرکیا۔اس نے خلیفہ کولکھا کہ دریائے نیل میں پانی کی غیر معمولی کمی اور زیادتی کو اعتدال پر لانے اس کے بہائو میں باقاعدگی پیداکرنے اور اسکے قیمتی پانی کو محفوظ کرکے سال بھر زراعت کیلئے استعمال میں لانے کیلئے ایک وسیع منصوبے کے تحت دریا کے پانی کو ذخیرہ کرلینا چاہئے۔ یہ اپنے وقت میں ڈیم کی اہمیت کے متعلق تھا۔ابن الہیشم کو علم مناظر کاسرچشمہ تصور کیاجاتا ہے ۔علم ہیئت ، ریاضی ،فلسفہ اورطب پر اسکی دوسو کے قریب تصانیف ہیں ۔نظام معیشت شائد ایک ایسا علم ہے جسے یہودی نے سب سے افضل و اولین سمجھا اور آہستہ آہستہ کیا یورپ کیا ایشیا اور کیاامریکہ سب پر معاشی قبضہ کرلیا۔ سرمایہ درارانہ نظام تو ہے ہی یہودی کادیا ہوامگر دوسری انتہاپر کیمونزم کا بانی کارل مارکس بھی یہودی تھا۔گویا معیشت کی کوئی بھی شکل یا کوئی بھی انتہا ہو یا اس کا کوئی بھی میدان چاہے وہ میکنڈا نلڈ برگر ہویا روس کا ریاستی اور حکومتی نظام ، ہرجگہ یہودی معیشت بڑے بڑے بینکوں ،انشورنس کمپنیوں،بڑے بڑے مالز، فرنچائیز قرض دینے والے بین الاقوامی اداروںکی شکل میں اپنے ہونے کا اعلان کررہی ہے۔آج دنیا میں جسے "اسلامی بلاک"کہا جاتا ہے وہ اکثر مقروض ہے یا یہودی کا ممنون پوری دنیا کی معیشت میں کسی مسلمان ملک کا اپنا دیا ہوا کوئی نظام معیشت رائج نہیں۔ ہمارے اولین فلسفیوں ،ماہرین طبعیات ،ماہرین فلکیات ، ماہرین طب ،ماہرین ریاضی ،ماہرین ہئیت،ماہرین موسیقی ،ماہرین منطق،ماہرین قواعد،ماہرین سیاست، غرضیکہ علم کی کسی شاخ کے کسی ماہر کی تحقیق وجستجو کا میدان شائد نظام معیشت رہا ہی نہیں۔ایک اسلام کا نظام معیشت ہے جس موضوع پر صرف گذشتہ نصف صدی میں کچھ لکھا توگیا ہو مگر اس پر عمل نہ ہوا۔ہمارے ملک میں البتہ "اسلامی بینکنگ"کے نام سے ایک کھیل جاری ہے۔