مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کی حق تلفی
آبادی اور جغرافیائی حدود کے لحاظ سے اسمبلی حلقوں کو دوبارہ ترتیب دینے کی مشق حلقہ بندی کہلاتی ہے۔یہ سیاسی طاقت کی تقسیم کے لیے طویل المدتی اثرات سے بھر پور ایک مشق ہوتی ہے اور اسی وجہ سے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیرمیں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے پہلے مردم شماری کو پانچ سال کے لئے ملتوی کیا گیا اور اب نرنندر مودی کی حکومت مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی نئی انتخابی حلقہ بندیاں کرنے جارہی ہے۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 82 کے مطابق کسی بھی ریاست میں نئی حلقہ بندیاں یاانتخابی حلقوں میں اضافہ مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ 2002ء میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت میں بھارتی پارلیمنٹ نے قانون سازی کی تھی کہ تمام ریاستوں میں حلقہ بندیوں کا از سر نو تعین 2026ء سے پہلے نہیں کیا جائے گا لیکن 6 مارچ 2020 ء کو بھارتی حکومت نے بھارتی سپریم کورٹ کی سابق جج رنجناپرکاش ڈیسائی کی سربراہی میں جموں و کشمیر، آسام، اروناچل پردیش، منی پور اور ناگالینڈ اسمبلیوں کے حلقوں کو ازسرِ نو ترتیب دینے کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیاجس نے 20 دسمبر 2021 ء کو سفارش کی کہ ’’وادی کشمیر‘‘کے بجائے ہندو اکثریتی علاقے ’’جموں ‘‘ میں انتخابی حلقوں کی تعداد بڑھا دی جائے۔مذکورہ کمیشن نے نہ صرف ہندو اکثریتی علاقے ’’جموں‘‘ کے لیے مزید نشستوں کی سفارش کی بلکہ یہ تجویزبھی پیش کر دی کہ مقبوضہ ریاست میں فی نشست ووٹرز کا تناسب جموں کے 1 لاکھ 25 ہزار 82 کے مقابلے میں 1 لاکھ 46 ہزار 563 ووٹ ہونا چاہیے۔
6 اگست 2019ء کو بھارتی آئین میں ترمیم کے ذریعے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے قبل 2011 ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمان مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی آبادی کا 56.15 فیصد تھے جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر اسمبلی کی 87 نشستوں میں سے وادی کشمیرکی46، جموں کی37 اور لداخ کی 4 نشستیں تھیں لیکن حالیہ اقدامات کے تحت بھارتی حکومت نے لداخ کی 4 نشستوں کو ختم کرنے کے بعد مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں 7نشستوں کا اضافہ تجویز کر دیاجس سے کْل نشستوں کی تعداد 90 ہو گئی۔ اس اضافہ کے تحت وادی کشمیر کوایک اور جموں کو 6 اضافی نشستیں دی جائیں گی۔اس طرح وادی کشمیر کی ریاستی اسمبلی میں47 اور جموں کی 43 نشستیں ہوجائیں گی ۔اب اگربی جے پی کو’’وادی کشمیر‘‘ میں سادہ اکثریت (یعنی 44 نشستیں )حاصل ہوتی ہیں،جن کو وہ آج تک حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی، نئی حلقہ بندیوں کے تحت ہونے والے آئندہ انتخابات میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہونے کی صورت میں مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں ایک ہندو وزیر اعلیٰ لانے میں کامیاب ہوجائے گی۔
بھارت کے آئینی نظام کے مطابق کسی بھی ریاست کی آبادی ریاستی اسمبلی کے منتخب نمائندوں کی تعداد کا تعین کرتی ہے لیکن بی جے پی کی موجودہ حکومت نے آئینی اصول کے برعکس مقبوضہ ریاست کے ’’وادی کشمیر‘‘کی مسلم اکثریتی آبادی کے مقابلے میں ہندو اکثریتی علاقے جموں کو ریاستی اسمبلی میں ایک کے مقابلے میں 6 اضافی نشستیں دے کر مسلم اکثریت کی نمائندگی کو کم کر دیا ہے جبکہ بھارتی سپریم کورٹ میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلاف زیر سماعت مقدمہ کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں مسلم اکثریتی علاقے ’’وادی کشمیر ‘‘کی نشستوں میں 9 فیصد جبکہ ہندو اکثریتی جموں میں 43 فیصد اضافہ ہوا۔بھارتی حکومت کی سوچی سمجھی پالیسی کے تحت مقبوضہ جموں میں ہندوؤں کی بڑی تعداد میں آباد کاری نے جموں میں پہلے ہی ہندو مسلم آبادی کا تناسب (Demography) بگاڑ دیا تھا لیکن موجودہ اقدامات کے بعد پوری مقبوضہ ریاست میں مسلم آبادی کی اکثریت اور برتری خطرے سے دوچار ہو گئی ہے۔ بھارتی حکومت نے حالات کو قابوں میں لانے کے لئے مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ کو اْن کے گھروں میںمحصور کر دیا ہے تاکہ وہ نئی قانون سازی کے خلاف احتجاجی تحریک نہ چلاسکیں۔اگرچہ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے بی جے پی حکومت کی جانب سے نئی انتخابی اصلاحات کو غیر آئینی قرار دیاہے۔ لیکن دوسری طرف انتخابی اصلاحات کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر بھارتی سیکورٹی فورسز نے طاقت کا بھر پور استعمال بھی شروع کر دیاہے ۔
ایک جانب بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں نیا ڈومیسائل قانون ، قابض بھارتی فوجیوں کو ریاستی اراضی کی الاٹمنٹ،نئی حلقہ بندیاںاور ہندوتوا کے حمایت یافتہ بھارتی تاجروں کو مقبوضہ علاقے میں زمینیں الاٹ کرکے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے جارحانہ اقدامات کر کے اپنی پوزیشن مستحکم کررہی ہے تو دوسری طرف حکومت پاکستان اور قومی سیاسی جماعتیں اس کھلی ناانصافی کے خلاف اندرونِ ملک اورعالمی سطح پر آواز نہیں اْٹھارہی ہیں۔حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اس مسئلہ پر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں اور عالمی رائے عامہ کو بھارت کے غیر قانونی اقدامات سے آگاہ کریں۔