احتساب کہانی تاریخ کی زبانی

پاکستان میں احتساب کی تاریخ انتہائی افسوسناک اور شرمناک رہی ہے-بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستانی قوم کو خبردار کر دیا تھا کہ کرپشن اور رشوت ستانی زہر ہیں جس پر قابو پانے کیلئے عبرت ناک سزاؤں کی ضرورت ہو گی- افسوس صد افسوس احتساب کا ایسا نظام وضع نہ کیا جا سکا جو صاف شفاف اور یکساں ہوتا اور احتسابی عمل کو منطقی انجام تک پہنچا کر کرپشن کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دے سکتا-لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اللہ نواز کے مطابق پاکستان میں ایسے قوانین تشکیل دیے گئے جو کرپشن کو پروموٹ کرنیوالے اور کرپٹ عناصر کو سپورٹ کرنے والے ہیں-ان قوانین کی موجودگی میں قومی دولت لوٹنے والے کو کیفر کردار تک پہنچانا ناممکن ہے-بد قسمتی سے پاکستان میں یہ اصول کار فرما ہے" رشوت لیتے پکڑے جاؤ تو رشوت دے کر چھوٹ جاؤ "-احتساب کے بارے میں دوسری بڑی معتبر گواہی شبر زیدی کی سامنے آئی ہے جو چند ماہ ایف بی آر کے چیئرمین رہے اور نیک نیتی کے باوجود ٹیکس نیٹ کو وسیع نہ کر سکے اور باوقار طور پر مستعفی ہوگئے-انہوں نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ پاکستان میں ریاست اور قوانین کرپشن کو پروموٹ کرتے ہیں بلکہ اسکی سرپرستی بھی کرتے ہیں-ٹیکس سسٹم کے قوانین عوام دشمن ہیں اور اشرافیہ کے مفادات کیلئے بنائے گئے ہیں-ٹیکس قوانین کی وجہ سے پاکستان میں ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح کم اور انڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح بہت زیادہ ہے- افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس عوام دیتے ہیں اور عوام کی دولت کو امیر طبقات اپنی عیش وعشرت کیلئے استعمال کرتے ہیںجبکہ ٹیکس دینے والے عوام بنیادی سہولتوں سے ہی محروم ہیں اور عزت کی زندگی گزارنے سے قاصر ہیں-شبر زیدی لکھتے ہیں کہ عالمی اصول یہ ہے کہ جس شخص کے اثاثے اسکی معروف آمدن سے زیادہ ہوں اسے کرپشن تسلیم کیا جاتا ہے- پاکستان میں اس اصول پر عمل نہیں کیا جاتا - کرپٹ عناصر احتساب کے اداروں کو کہتے ہیں کہ وہ ثابت کریں کہ انکے اثاثے ناجائز ہیں-سیاستدان اور میڈیا دونوں زمینی حقائق جانے بغیر عوام کو احتساب کے سلسلے میں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں جس کا نتیجہ مایوسی اور احساس محرومی کی صورت میں نکلتا ہے- شبر زیدی اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ جن ملکوں کے حکمران کرپٹ ہوتے ہیں وہ ٹیکس سسٹم کو ہی برباد کر کے رکھ دیتے ہیں-پاکستان کے لیگل سسٹم میں چور دروازے موجود ہیں قومی لیٹرے ان چور دروازوں سے بڑی آسانی کے ساتھ احتساب کی گرفت سے باہر نکل جاتے ہیں-ان کا کہنا یہ ہے کہ جب تک پاکستان کے قوانین کو پرو ایلیٹ کے بجائے پرو پیپل نہیں بنایا جاتا اس وقت تک پاکستان میں معاشی استحکام نہیں آ سکتا -پاکستان میں احتساب کا آغاز وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کیا اور پروڈا (PRODA )ایکٹ جاری کرکے کرپشن کے الزام میں سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین کو برطرف کیا جن میں سندھ کے چیف منسٹر پیر الٰہی بخش شامل تھے جن کو کرپشن کے الزام میں 7 سال کیلئے نااہل قرار دیا گیا-پاکستان کی تاریخ کے پہلے دس سالوں میں میگا سکینڈل سامنے نہ آئے البتہ متروکہ پراپرٹی کے سلسلے میں جعلی کلیموں کے ذریعے کرپشن کی گئی- جنرل ایوب خان نے اپنے دور میں ایبڈو (EBDO) ایکٹ کے تحت 75 سیاست دانوں کو نااہل قرار دیا اور 3000 سرکاری ملازمین کو برطرف کیا-جنرل ایوب خان کا دور کرپشن اور احتساب کے حوالے سے بہتر دور تھا-گوہر ایوب کے بارے میں مالیاتی کرپشن کا سکینڈل منظر عام پر آیا-پاکستان جاگو تحریک کے مرکزی نائب صدر طارق مشتاق پاکستان کے سابق نیک نام ٹیکنوکریٹ اور ایڈمنسٹریٹر ہیں ہ وہ پاکستانی تاریخ کے اصل سچ کے معتبر گواہ ہیں- انہوں نے بتایا کیا کہ جنرل ایوب خان کے دور میں جب تربیلا ڈیم کی تعمیر کا کنٹریکٹ دیا گیا تو امریکی کمپنی نے 369 کروڑ ڈالر کا تخمینہ دیا جبکہ اٹلی کی کمپنی نے 269 کروڑ کا تخمینہ دیا جنرل ایوب خان کو بتایا گیا کہ ورلڈ بنک اٹلی کی کمپنی کو قرضہ دینے پر آمادہ نہیں ہے لہٰذا ٹھیکہ امریکی کمپنی کو دینا پڑیگا-ایوب خان کے استفسار پر بتایا گیا کہ اٹلی کی کمپنی کا شمار دنیا کی پہلی دس کمپنیوں میں ہوتا ہے اسکی تکنیکی مہارت امریکی کمپنی کے برابر ہے جنرل ایوب خان نے اٹلی کی کمپنی کو ٹھیکہ دینے کا فیصلہ کیا اور قومی خزانے کے 100 کروڑ ڈالر بچا لیے-ذوالفقار علی بھٹو کا دور کرپشن اور احتساب کے حوالے سے بہت بہتر تھا انہوں نے گیارہ سو سرکاری ملازمین کو مختلف الزامات میں برطرف کردیا۔ ان کی کابینہ کے کسی وزیر کے خلاف مالیاتی کرپشن کا الزام نہیں تھا-کرپشن کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوا۔ سول اور عسکری ملازمین کو سرکاری زمینیں الاٹ کی گئیں- من پسند افراد کو بنکوں سے کم شرح سود پر قرضے دلوائے گئے- اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ کے نام اربوں روپے دیئے گئے- شفاف احتساب کی کوئی روایت قائم نہ کی گئی-بے نظیر بھٹو میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے ادوار میں میگا سکینڈلز سامنے آئے-احتساب کے قوانین کو سیاسی انتقام کیلئے استعمال کیا گیا- جنرل پرویز مشرف نے احتساب کا معیاری نظام تشکیل دیا - نیب کے پہلے چیئرمین جنرل امجد نے کڑے اور یکساں احتساب کی روشن مثالیں قائم کیں-2002 کے انتخابات کے بعد احتسابی نظام اقتدار اور سیاست کی مصلحتوں کا شکار ہو گیا-جنرل مشرف نے دبئی میں فلیٹ خریدنے کیلئے سعودی عرب کے بادشاہ سے اربوں روپے گفٹ کے طور پر لیکر پاکستانی قوم کے سر شرم سے جھکا دیے-وزیر اعظم عمران خان کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ وہ اپنی خواہش کیمطابق احتساب نہیں کر سکے-میاں نواز شریف سزا کے باوجود کمزور عدالتی نظام ریاست کی سرپرستی اور قوانین میں موجود چور دروازوں کے ذریعے جیل سے نکل کر لندن پہنچ گئے-پاکستان کے عوام احتسابی عمل سے مایوس ہو چکے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ قوانین اور نظام کی تبدیلی کے بغیر ان کو بنیادی حقوق اور سہولیات میسر نہیں ہو سکتیں اور نہ ہی پاکستان کی آزادی اور قومی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے-پاکستان کے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ عوام اپنی سوچ بدلیں اور انگریزوں کے استحصالی اشرافیائی اور آقائی نظام کو تبدیل کرکے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے ویثرن کے مطابق نیا پاکستانی نظام تشکیل دیا جائے۔