ہفتہ ، 18 جمادی الثانی 1443ھ، 22 جنوری 2022ء
خبر ہے کہ حکومت نے فوجداری قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب تھانیدار بننے کیلئے بیچلر(بی اے) کی ڈگری لازمی ہوگی۔
یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ حکومت نے پولیس کو بہتر بنانے کی غرض سے تھانیداری کیلئے اسکی تعلیمی قابلیت کو بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس وقت امن و امان اور جرائم کی جو صورتحال ہے‘ اس کیلئے گریجویٹ تھانیدار کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی تھی جو اپنے ماتحت اہلکاروں کو راہ راست پر لانے کے ساتھ ساتھ انکی اخلاقی تربیت بھی کر سکے۔
اس سے پہلے پورے محکمۂ پولیس کی ’کَل‘ سیدھی کرنے کیلئے کبھی اسکی وردی تبدیل کی گئی تو کبھی جرابیں‘ کبھی موٹی توندوں کو اندر کرنے کا فارمولا آزمایا گیا تو کبھی انہیں عوام کے ساتھ خوش کلامی کا پابند کرکے پولیس نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی‘ لیکن مجال ہے کہ ہماری پولیس ٹس سے مس ہوئی ہو۔
متذکرہ فوجداری قوانین میں ترامیم آئندہ ہفتے منظوری کیلئے وفاقی کابینہ میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ اسکے بعد اسے منظوری کیلئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائیگا۔ایسا ہی ایک قانون مشرف دور میں ہماری قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ کیلئے بھی پاس کیا گیا تھا جس کے بعد گریجویٹ اسمبلی وجود میں آئی لیکن افسوس‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اسکے رنگ ڈھنگ اور طور طریقے وہی رہے جس کی جھلک آج بھی اجلاسوں میں قوم کو دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں گفتگو سن کر زبان بے آبرو ہوتی ہو‘ جہاں خیال و زبان کی آبرو نہ رکھی جاسکتی ہو‘ وہاں قوم و ریاست کی آبرو رکھنے کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے۔ اس سطح پر مایوس ہو کر حکومت نے اب نچلی سطح سے حالات کو سدھارنے کا سوچا ہے‘ اس کیلئے اب نِکے تھانیدار کی جگہ گریجویٹ تھانیدار لایا جا رہا ہے‘ دیکھتے ہیں اسکے آنے سے تھانہ کلچر تبدیل ہوتا ہے یا اسی پرانی ڈگر پر ہی گامزن رہتا ہے۔
ویسے یہ اپنی نوعیت کی انوکھی مثال ہے‘ جو اعلیٰ ڈگریاں رکھنے والے اپنے طور طریقے نہیں بدل سکے وہ عوام کو اچھا اور پڑھا لکھا تھانیدار دینے کیلئے اس قانون کو پاس کریں گے۔ امید پر دنیا قائم ہے‘ اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والا گریجویٹ تھانیدار نہ صرف نکے تھانیدار سے مختلف ہوگا اور وہ صرف تھانے کا کلچر ہی تبدیل نہیں کریگا بلکہ اپنے ماتحت عملے کی اخلاقی اور قومی تربیت بھی کریگا۔قوم کو ایک سلجھی ہوئی پولیس کی ضرورت ہے‘ وہ چاہے وردی کی تبدیلی سے آئے یا بی اے کی تعلیم سے۔
٭…٭…٭
پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی نے ایک اور بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ امراض قلب کے واحد سرکاری ہسپتال میں 66 سالہ مریض کے دل کا وال بغیر سینہ کھولے اور کٹ لگائے تبدیل کیا گیا۔ ایسا کامیاب اپریشن پہلی بار کیا گیا ہے اور مریض کی حالت بھی درست ہے جبکہ دوسری خبر کے مطابق ہائی کورٹ نے میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے 90 فیصد ڈاکٹرز کو ناتجربہ کار قرار دے دیا۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ قوم کس پر فخر کرے اور کس پر افسوس۔ بہرحال ہمیں فخر کرنے والی خبر پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ ایسی خبریں ہمارے ہاں خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ پشاور کے ڈاکٹرز کی اس کامیابی پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔ محدود وسائل کے باوجود ایسی کامیابی قابل تحسین ہے۔ طب کے میدان میں ہمارے ڈاکٹروں نے اور بھی کئی کارنامے سرانجام دیئے ہیںلیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ کسی بڑی کامیابی کے بعد کچھ ماہرین وطن عزیز کی خدمت کرنے کے بجائے دیارِ غیر کا رخ کرلیتے ہیں اور قوم کے پیسے سے خدمت خلق کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس غریب قوم کو بے یارومددگار چھوڑ جاتے ہیں۔ ان میں سے جو ڈاکٹر خوش قسمتی سے باہر جانے کا فیصلہ نہیں کرتے وہ اپنی اس کامیابی کو مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اس طرح انکی کامیابی سے صرف امراء ہی مستفید ہوپاتے ہیں جبکہ غریب پھر اسی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ پشاور کے یہ ماہر طبیب ایسا ہرگز نہیں کرینگے‘ وہ وطن عزیز میں رہتے ہوئے غریب غربا کی خدمت کرینگے اور ان 90 فیصد ناتجربہ کار ڈاکٹروں کیلئے روشن مثال بنیں گے۔
٭…٭…٭
خبر ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم نے پرائمری طلبا کیلئے بستے ختم کر دیئے‘ حکام کے مطابق طلبا کتابوں کا ایک سیٹ گھر جبکہ دوسرا سکول میں رکھا جائیگا۔
شکر ہے کہ اس طرح بچوں کی ’’ویٹ لفٹنگ‘‘ سے جان چھوٹ جائے گی۔ ورنہ اتنا وزن بچے کا نہیں ہوتا جتنا وہ کتابوں کا بھاری بیگ اپنی پیٹھ پر لاد کر علم حاصل کرنے وہ سکول جاتے ہیں‘ اس طرح وہ علم حاصل کرنے کے بجائے علم کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتے ہیں۔میڈیکل کے لحاظ سے بھی کتابوں کا اتنا وزن بچوں کی ریڈھ کی ہڈی پر ہی بوجھ نہیں ہوتا بلکہ انکے اعصاب کیلئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ گھر سے سکول اور سکول سے گھر پہنچنے تک انہیں ایک مشقت کا سامنا رہتا ہے۔ بالخصوص کمزور بچے اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ وفاقی وزارت تعلیم کا یہ خوش آئند فیصلہ ہے۔ آج کے جدید تقاضوں کے مطابق بیرونی دنیا میں تو بچوں پر سے سکول بیگوں کا بوجھ تو ویسے ہی ختم کردیا گیا ہے‘ ساری درس و تدریس کا کام آن لائن کیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں بچوں کو بھاری بھرکم کتابوں کے بوجھ تلے دبا کر علم حاصل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ آج ہم یہ بھول چکے ہیں کہ علم تو مسلمانوں کی متاع رہی ہے۔ زندگی کی عصمت کا نام اخلاق ہے اور بے عصمت اور بے اخلاق زندگی گزارنا کم از کم مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے۔ ہم نے تعلیم کی اخلاقی قدروں کو پس پشت ڈال کر اسے کاروبار بنا دیا ہے‘ بھاری فیسیں اور مہنگے سکول‘ کالجوں میں پڑھنا فخر سمجھتے ہیں۔ یہ مہنگے مدارس علم کا مرکز تو بنے لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں کہ ان میں علم حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کے طرز زندگی نے بہت سے دوسرے طالب علموں کو احساس محرومی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اسی تناظر میں شاید حکومت کی جانب سے تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں یکساں تعلیمی نصاب لاگو کیا گیا ہے تاکہ طلبا و طالبات میں پایا جانیوالا احساس محرومی ختم کیا جا سکے۔