معیشت کی بہتری کے دل خوش کن دعوے
وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے یہ دل خوش کن خبر دی ہے کہ پاکستان کی معیشت نے پچھلے سال 5.37 فیصد کی شرح سے ترقی کی۔ زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، گردشی قرضوں میں نمایاں کمی اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ معمولی رہا۔ اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کاکہنا تھا معاشی استحکام کیلئے حکومت نے مشکل فیصلے کیے، معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔
وفاقی وزیر کی طرف سے ملکی معیشت میں بہتری کے حوالے سے جو اعداد و شمار دئیے گئے ہیں وہ بظاہر بڑے دل خوش کن اور حوصلہ افزاء ہیں اور اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حکومت اقتصادی ترقی کے حوالے سے صحیح سمت سفر کر رہی ہے اور آنیوالے سالوں میںملک میں خوشحالی اور استحکام پیدا ہو گا۔ ترقی کی راہیں کھلیں گی اور عوام کی اجیرن بنی زندگی میں خوشگوار انقلاب آ جائے گا۔ لیکن جب وفاقی وزیر کی مذکورہ خوشخبری کو ملک کے موجودہ حالات اور زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھتے ہیںتو اس پر حیرت پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ جس معاشی صورتِ حال کا پوری قوم کو سامنا ہے اور دن بدن ابتر ہوتی معیشت نے جس بُری طرح اس قوم کو جکڑ رکھا ہے اس نے تو عام آدمی کو مختلف مسائل میں مبتلا کردیا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری ، افراطِ زر، ذخیرہ اندوزی اور لوٹ مار نے اس کیلئے جینے کے اسباب محدود کر دئیے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کے نرخوں میں آئے روز اضافہ نے عام آدمی کا گھریلو بجٹ تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے ہر طلوع ہونیوالا سورج کسی خوشی و مسرت کامژدہ سنانے کے بجائے پریشانی اور تکلیف کی خبر دیتا ہے۔ سو ان پریشان کن حالات میں ملک کی معیشت میں بہتری اور شرحِ نمو میں اضافے کی بات خوش گمانی سے زیادہ کچھ نہیں لگتی۔ کیونکہ اگر ملک کی معیشت واقعی بہتری کی طرف مائل ہے تو پھر اسکے اثرات عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے۔جب تک عام آدمی کو ریلیف نہیں ملتا، اسے مسائل و مشکلات سے نجات نہیں مل جاتی اس قسم کے حکومتی دعوے محض سیاسی بیانات ہی تصور کیے جائیں گے۔